1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسد حکومت کی اقتدار پر گرفت اب بھی مضبوط

17 جنوری 2012

شام کی صورتحال پيچيدہ ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کے خلاف لڑنے والی اپوزيشن ميں آپس ميں اختلافات پائے جاتے ہيں۔ غير ممالک کی سمجھ ميں نہيں آ رہا ہے کہ وہ کيا کريں اور بشارالاسد کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/13kp0
بشارالاسد کے خلاف ايک مظاہرہ
بشارالاسد کے خلاف ايک مظاہرہتصویر: Reuters

شام کی صورتحال تعّطل کی شکار ہو چکی ہے۔ بيرونی ممالک کے پاس حکومت کے مخالفين پر تشدد اور اُن کی ہلاکتوں کو روکنے کے ليے کوئی وسائل معلوم نہيں ہوتے۔ ملک اسد کے مخالفين اور حاميوں ميں منقسم ہوتا جارہا ہے، جو خانہ جنگی کے ليے بہت سازگار فضا ہے۔ بعض علاقوں پر حکومت کا کنٹرول نہيں ہے۔ اسد حکومت کے خلاف کسی اقدام کی چين اور روس کی طرف سے مسلسل مخالفت کے باعث اقوام متحدہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہيں۔ عرب ليگ کا شام کو روانہ کردہ وفد ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔ کئی ہفتوں سے غائب رہنے کے بعد بشارالاسد 24 گھنٹوں کے اندر دو مرتبہ منظرعام پر نمودار ہوئے ہيں۔ اُنہيں غير ملکی فوجی مداخلت کا خوف نہيں ہے۔ اُن کے بدترين دشمن اسرائيل، مغربی ممالک اور خليج کی عرب رياستيں بھی اُن کی اس پيشگوئی کو تسليم کرتی ہيں کہ فوجی مداخلت سے پورے مشرق وسطٰی ميں آگ کے شعلے بھڑک اٹھيں گے۔

شامی صدر اسد اميہ اسکوائر پر اپنے حاميوں کے ساتھ
شامی صدر اسد اميہ اسکوائر پر اپنے حاميوں کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa

شام کے امور سے اچھی طرح باخبر جوزف کيشيچين کا کہنا ہے کہ فوج سے فرار ہونے والے شامی حکومت کے ليے کوئی خاص خطرہ نہيں ہيں: ’’شامی فوج سے فرار ہونے والوں کی صحيح تعداد پتہ کرنا بہت مشکل ہے۔ يقيناً يہ فوج کے ليے ايک مسئلہ ہے اور يہ جاری بھی رہے گا۔ ليکن فيصلہ کن سوال تو يہی ہے کہ کيا يہ حکومت کے خاتمے کے ليے کافی ہو گا؟‘‘

اسد کے اقتدار پر قابض رہنے ميں فيصلہ کن کردار اُن کے بھائی کے زير کمان خصوصی دستوں اور اُن سے منسلک خفيہ اداروں کا ہے۔ اس کے علاوہ نيم فوجی دستے بھی ہيں، جو انتہائی وحشيانہ انداز ميں تشدد کرتے ہيں۔ اُن ميں وفادارياں تبديل کرنے کے رجحانات ظاہرنہيں۔ انہيں معلوم ہے کہ اس کے نتيجے ميں وہ کن خصوصی مراعات سے محروم ہو جائيں گے۔

قاہرہ ميں شام کے مسئلے پر عرب ليگ کا اجلاس
قاہرہ ميں شام کے مسئلے پر عرب ليگ کا اجلاستصویر: Reuters

شامی فوج آزادی کے مسلح دستے سرکاری تنصيبات پر حملے تو کر رہے ہيں ليکن خود اُن کے کمانڈروں کو بھی يہ تک نہيں معلوم کہ يہ فوج کتنی بڑی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ 40 ہزار کی ہے اور کبھی 20 ہزار کی بات کی جاتی ہے۔ اسد کو اپنی علوی اقليت اور ملک کے خاموش رہنے والے سنی مسلمانوں اور مسيحيوں پر پورا بھروسہ ہے، جو معاشی طور پر کامياب ہيں۔

خليجی ممالک اور سعودی عرب کی مخالفت کے باوجد اسد کو عراق، لبنان اور الجزائر کی حمايت حاصل ہے۔ اپوزيشن ميں پھوٹ ہے اور اسد کے بعد کے دور کے ليے اُن کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہيں، جو تذبذب کے شکار شاميوں کو قائل کر سکے۔

رپورٹ: اُلرش لائڈ بولٹ، عمان / شہاب احمد صديقی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید