1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

اربوں روپوں کی وصولی کے دعوے

عبدالستار، اسلام آباد
17 فروری 2022

قومی احتساب بیورو کے بعد اب پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اربوں روپے کی وصولی میں مدد کی ہے۔ تاہم ملک کے کئی حلقے ان دعووں پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/47BNN
Pakistan PK nach militäroperation in Kalat
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

پاکستان میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس کے دور اقتدار میں اربوں روپے کی ریکوری ہوئی ہے اور اگر بدعنوان سیاستدانوں کے مقدمات جلد از جلد نمٹا دیے جائیں تو پاکستان کو 30 کھرب روپے سے زیادہ مل سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اربوں روپے کی ریکوری کا دعوی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کیا تھا۔

کمیٹی نے کیسے مدد کی

حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے ہٹائے جانے والے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے سامنے مختلف بدعنوانی کے واقعات آتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کمیٹی ایسے مقدمات کا جائزہ لینے کے بعد اور اس کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد انہیں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یا نیب کے سپرد کر دیتی ہے جو کارروائیاں کر کے پیسے کی ریکوری کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کمیٹی نے اس طرح کے کیس تفتیشی اداروں اور نیب کو بھیجے ہوں جنہوں نے بعد میں ریکوری کی ہو۔‘‘

اس سے پہلے نیب نے بھی اربوں روپے کی ریکوری کا دعویٰ کیا تھا جس پر مختلف حلقوں کی طرف سے سوال اٹھے تھے۔ ڈوئچے ویلے نے جب اس حوالے سے نیب کے ایک آفیشل سے رابطہ کیا تو انہوں نے تفصیلات بھیجیں۔ ان تفصیلات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ادارے کے قیام سے لے کر ستمبر 2021ء تک نیب نے 821 ارب روپے کے قریب ریکور کیے ہیں۔ اس میں زمین جائیداد اور دوسرے حوالوں سے وصول کی گئی رقم 500 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ریکور کی گئی اس رقم کو دعویدار متاثرین اور دوسرے متعلقہ اداروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ بینکوں کے نادہندگان سے 196 ارب سے زیادہ رقم ریکور کی گئی جبکہ نیب عدالتوں کی طرف سے کی گئے جرمانے کی مد میں 45 ارب روپے سے زیادہ وصول ہوئے۔ اس کے علاوہ پلی بارگین کے ذریعے 76 ارب روپے سے زیادہ وصول کیے گئے۔

Pakistan | Rupee
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قیام سے لے کر ستمبر 2021ء تک نیب نے 821 ارب روپے کے قریب ریکور کیے ہیں۔تصویر: Imago stock&people

تاہم کئی ناقدین ان دعووں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ اس ادارے کے تمام دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں: ''جب ہم نے ان سے تفصیلات مانگیں تو انہوں نے تفصیلات بتانے سے معذرت کی۔ صرف یہ بتانا ضروری نہیں کہ کس مد میں پیسے کی ریکوری ہوئی ہے بلکہ اس کی ساری تفصیلات دینا بہت ضروری ہے۔‘‘

 پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے ہٹائے جانے والے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کا بھی یہی شکوہ ہے کہ نیب نے اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں: ''جب ادارے کے  چیئرمین سے تفصیلات کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ جمع کرائیں گے لیکن تفصیلات بتائی نہیں گئیں اور صرف تفصیلات ہی ضروری نہیں ہوتیں، اس کے بعد ان کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آڈٹ بھی ہونا ہوتا ہے۔ لہٰذا تفصیلات سامنے آنی چاہییں۔‘‘

ریکوری کا پیسہ

سابق سیکرٹری پلاننگ کمیشن فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کے ضروری نہیں کہ یہ پیسہ قومی خزانے میں آئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عموماﹰ ایسا پیسہ متاثرین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جس طرح کوآپریٹو اسکینڈل ہوا تھا اور اس میں ہزاروں لوگوں کے پیسے ڈوبے تھے جب وہ پیسے ریکور ہوئے تو ان تقسیم کر دیے گئے بالکل اسی طرح یہ پیسے متعلقہ اداروں کو بھیج دیے گئے ہوں گے اگر بینکوں کے پیسے وصول  ہوئے ہیں تو وہ بینکوں کو ملیں گے جب کہ وفاقی حکومت کے پاس بہت تھوڑا پیسہ آیا ہوگا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ جرمانے کے پیسے سرکاری خزانے میں جمع ہوتے ہیں اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جرمانے کی مد میں نیب نے جو پیسے وصول کیے ہوں گے وہ سرکاری خزانے میں گئے ہوں گے: ''بہت ساری رقم  ایسی بھی ہو سکتی ہے جس کا تعلق صوبائی حکومتوں سے ہو تو وہ صوبائی حکومتوں کے پاس چلے گئے ہوں گے۔‘‘

محاز آرائی نہیں بلکہ احتساب چاہتے ہیں، فواد چوہدری

تنقید کا جواب

تاہم  پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے اگر سیاستدانوں پر چلنے والے مقدمات جلد از جلد نپٹ جائیں تو پاکستان کو 30 کھرب روپے سے زیادہ مل سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بدقسمتی سے پاکستان میں بدعنوان سیاستدان اسٹے آرڈر لے لیتے ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے کہ وہ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کوئی قانون سازی کر سکے لیکن اگر ان بدعنوان سیاستدانوں کے فیصلے ہو جاتے ہیں تو پاکستان کو تین ہزار ارب سے بھی زیادہ مل سکتے ہیں۔‘‘

مسرت چیمہ کے بقول صرف شہباز شریف کے مقدمے میں 16 ارب روپے کی ممکنہ طور پر ریکوری ہو سکتی ہے: ''موصوف کے مقدمے میں چپڑاسی اور نچلے درجے کے ملازمین اربوں روپیہ ان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر رہے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ ہوجائے تو صرف اسی فیصلے سے 16 ارب روپیہ حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘