1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ادب و فن: 2013ء کا سالانہ جائزہ

امجد علی26 دسمبر 2013

یہ سال جہاں ایک طرف بہت سی نئی اور کامیاب فلموں کی صورت میں پاکستانی فلمی صنعت کے احیاء کی امید لے کر آیا، وہیں ریشماں، زبیدہ خانم اور منا ڈے جیسے کئی نامور پاکستانی اور بھارتی فنکار داعیء اجل کو لبیک کہہ گئے۔

https://p.dw.com/p/1Agxc
خوشی کے لمحات: گلوکارہ زبیدہ خانم ریڈیو پاکستان لاہور میں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں مشہور اداکار مصطفیٰ قریشی اور اداکارہ بہار بیگم کے درمیان
خوشی کے لمحات: گلوکارہ زبیدہ خانم ریڈیو پاکستان لاہور میں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں مشہور اداکار مصطفیٰ قریشی اور اداکارہ بہار بیگم کے درمیانتصویر: privat

2013ء کے آغاز میں ہی 19 جنوری کو پاکستان کی مشہور گلوکارہ مہناز طویل علالت کے بعد پچپن برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ علاج کی غرض سے امریکا کے سفر پر جاتے ہوئے خلیجی عرب ریاست بحرین میں رُکی تھیں اور وہیں اُن کا انتقال ہو گیا۔

مہناز موسیقی کی مختلف اصناف مثلاً غزل، ٹھمری، درپد اور دادرا پر مہارت رکھتی تھیں اور پاکستانی فلمی صنعت کے صف اول کے پلے بیک سنگرز میں شمار ہوتی تھیں۔ مہناز بر صغیر کی معروف گلوکارہ اور نوحہ خواں کجّن بیگم کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کی طرح مہناز نے بھی نوحہ خوانی اور مرثیہ خوانی میں شہرت پائی اور ساتھ ساتھ مسیحی گیت بھی گاتے ہوئے پاکستان میں بین المذہبی بھائی چارے کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔

واہگہ بارڈر: مایہ ناز پاکستانی فوک گلوکارہ ریشماں، جو بیس جنوری 2006ء کی اس تصویر میں لاہور اور امرتسر کے درمیان چلنے والی پہلی بس کے دروازے میں کھڑی صحافیوں سے گفتگو کر رہی ہیں
واہگہ بارڈر: مایہ ناز پاکستانی فوک گلوکارہ ریشماں، جو بیس جنوری 2006ء کی اس تصویر میں لاہور اور امرتسر کے درمیان چلنے والی پہلی بس کے دروازے میں کھڑی صحافیوں سے گفتگو کر رہی ہیںتصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images

رُو بہ زوال پاکستانی فلمی صنعت کے باعث وہ ایک عرصے سے موسیقی کے منظر سے غائب تھیں، پھر بھی انہوں نے اپنے کیریئر میں ریڈیو، فلم اور ٹیلی وژن کے لیے ڈھائی ہزار سے زائد گانے گائے۔

اِس سال 9 مارچ کو پاکستانی پنجابی فلموں میں جلوہ گر ہونے والی ماضی کی معروف اداکارہ آسیہ 65 برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔ فلمی حلقوں میں ’پری چہرہ‘ کہلانے والی اس اداکارہ کا انتقال کینیڈا میں ہوا۔ اُن کی پیدائش 1951ء میں بھارتی پنجاب میں ہوئی۔ ’مولا جٹ‘ سمیت تقریباً 180 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد گزشتہ بیس برسوں سے وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کینیڈا میں رہائش پذیر چلی آ رہی تھیں۔

بھارتی گلوکار منا ڈے
بھارتی گلوکار منا ڈےتصویر: RAVEENDRAN/AFP/Getty Images

اس سال تین نومبر کو اپنے پرستاروں اور مداحوں کو لمبی جدائی دے کر رخصت ہو گئیں، پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ لوک گلوکارہ ریشماں۔ اُن کی عمر چھیاسٹھ برس تھی۔ وہ ایک طویل عرصے سے گلے کے سرطان میں مبتلا چلی آ رہی تھیں۔ انیس سو سینتالیس ميں راجستھان کے علاقے بیکانیر میں ایک خانہ بدوش خاندان میں پیدا ہونے والی ریشماں بچپن ہی سے سندھ کے مزاروں پر صوفیانہ کلام پیش کرتی رہیں اور وہیں شہباز قلندر کے مزار پر اُنہیں ریڈیو پاکستان کے ایک پروڈیوسر سلیم گیلانی نے دریافت کیا اور انہیں ریڈیو پر گانے کا موقع دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ریشماں پاکستان کی مقبول ترین فوک سنگر بن گئيں۔

اس سال چوبیس اکتوبر کو بھارت کے لیجنڈ گلوکار منا ڈے بھی بنگلور میں 94 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ 1919ء میں مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں پیدا ہونے والے منا ڈے نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1942ء میں کیا تھا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران مجموعی طور پر تقریباً چار ہزار گیت گائے۔

چند سال پہلے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں پرانے اور موجودہ دور کی موسیقی کے موازنے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے منا ڈے نے بتایا تھا:’’وقت بدل رہا ہے اور اُسی اعتبار سے ہماری موسیقی بھی بدل رہی ہے۔ ایک بار میں نے ایک گیت گایا تھا، جس کا ٹائیٹل تھا کہ ’سمے بڑا بَلوان ہوتا ہے‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعی حقیقت ہے۔ وقت واقعی بہت طاقتور ہوتا ہے۔ ہم وقت کے ساتھ ساتھ چل کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

پاکستانی فلم ’زندہ بھاگ‘ کا پوسٹر
پاکستانی فلم ’زندہ بھاگ‘ کا پوسٹرتصویر: Farjad Nabi

اس سال اُنیس اکتوبر کو پاکستان کی فلم انڈسٹری کو بڑی تعداد میں یاد گار اورشاہکارگیت عطا کرنے والی معروف پاکستانی گلوکارہ زبیدہ خانم 78 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں اور شائقین موسیقی کی اُن کئی نسلوں کو سوگوار کر گئیں، جو اُن کے گیتوں سے محظوظ ہوتی رہی ہیں۔ انیس سو اکیاون میں فلم "بلو"سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والی زبیدہ خانم نے ایک سو سینتالیس فلموں کے لیے دو سو چوالیس نغمے گائے۔

اس سال بھارت میں ماضی کے عظیم ایتھلیٹ ملکھا سنگھ کی زندگی پر مبنی فلم ’بھاگ ملکھا بھاگ‘ سینماؤں کی زینت بنی۔ اس کا ٹائیٹل گیت پاکستان کے معروف فوک گلوکار عارف لوہار نے گایا۔ بعد ازاں ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں عارف لوہار کا کہنا تھا کہ ’اس انداز میں گیت گانا اُن کے لیے ایک چیلنج تھا، جسے اُنہوں نے قبول کیا اور اُنہیں خوشی ہے کہ وہ اس امتحان میں پورا اترے‘۔

پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہار
پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہارتصویر: cc-by-bc-sa/Lorenz Khazaleh 3.0

پچاس سال سے زائد عرصے کے بعد اس سال پہلی مرتبہ پاکستان نے اپنی ایک فلم ’زندہ بھاگ‘ کو بہترین غیر ملکی فلم کے آسکر ایوارڈ کے لیے روانہ کیا۔ یہ فلم اس شعبے میں شارٹ لسٹ کی جانے والی نو فلموں میں تو جگہ نہیں پا سکی ہے تاہم اس نے اور اس کے ساتھ ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر کئی پاکستانی فلموں نے پاکستانی فلمی صنعت کے احیاء کے امکانات پھر سے روشن کر دیے۔ اس فلم میں نامور بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ بھی جلوہ گر ہوئے۔

فلم ’زندہ بھاگ‘ کے پروڈیوسر مظہر عباس زیدی نے اس فلم کے حوالے سے ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس میں بہت سے نوجوان فنکاروں کو موقع دیا گیا، جنہوں نے بڑی محنت سے اپنے کرداروں میں رنگ بھرا۔

2013ء کا نوبل انعام پانے والی ادیبہ ایلس منرو
2013ء کا نوبل انعام پانے والی ادیبہ ایلس منروتصویر: picture alliance/AP Photo

گزشتہ سال 9 اکتوبر کو طالبان نے پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعے کو ایک سال پورا ہونے کے موقع پر نہ صرف ملالہ کی آپ بیتی منظر عام پر آئی بلکہ کینیڈا میں ملالہ، اے گرل فرام پیراڈائز‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم بھی ریلیز کی گئی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور مصنف محسن عباس نے ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ ایک گفتگو میں چین اور دوسرے ممالک میں اپنے سفر کے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا:’’وہاں جب لوگوں سے تعارف ہوتا اور میں انہیں بتاتا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو بہت سی جگہوں پر یہ سننے کو ملا کہ اچھا ملالہ یوسف زئی کے ملک سے۔ یہ سن کر ہمیشہ اچھا لگا۔‘‘

’سونا چاندی‘ کے نام سے مشہور پاکستانی ٹی وی سیریل کے مصنف اور معروف صحافی منو بھائی اس سال فروری میں اَسی برس کے ہو گئے۔ صحافت اور ادب کے ساتھ وابستگی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’اِس کی وضاحت آسان زبان میں اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ جو چیز دکھائی دے رہی ہے، وہ تو جرنلزم ہے۔ جو حقائق کے پیچھے کچھ حقائق ہوتے ہیں، اُن تک پہنچنا ادب کا کام ہوتا ہے۔ اُس کے پیچھے جو وجوہات ہوتی ہیں، اُن تک پہنچنا حکمت کی بات ہوتی ہے۔ یہ درجے ہیں: صحافت، ادب اور حکمت لیکن ہے تو شعبہ ایک ہی، ابلاغ کا۔‘‘

برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ
برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگتصویر: picture-alliance/AP

عالمی ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے کے اعتراف میں 2013ء کا نوبل ادب انعام کینیڈا کی بیاسی سالہ معروف مصنفہ ایلِس مُنرو کو دیا گیا۔ سویڈش اکیڈمی کی جیوری کا کہنا تھا کہ اس انعام کے ذریعے مُنرو کے فن کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، جو چند صفحات پر بے شمار احساسات تحریر کر دیتی ہیں۔ اب تک مُنرو کا ایک ناول اور مختصر کہانیوں کے 13 مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

اس سال نوبل انعام یافتہ برطانوی ادیبہ ڈورِس لیسنگ بھی 94 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ 2007ء میں اٹھاسی سال کی عمر میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی وہ سب سے زیادہ عمر رسیدہ ادیبہ تھیں۔ ڈورِس لیسنگ نے مختصر کہانیوں کے مجموعوں کے ساتھ ساتھ 55 ناول بھی لکھے۔ چند برس پہلے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا تھا:’’میں سمجھتی ہوں کہ ہماری پوری تہذیب بہت ہی سطحی قسم کی ہے اور بڑی آسانی سے ختم ہو سکتی ہے کیونکہ پیچیدہ سے پیچیدہ ٹیکنالوجیز پر اس کا انحصار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں ان سب سے محروم ہو جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘