اتوار کو روس ميں انتخابات: کوئی تبديلی نہيں آئے گی
2 دسمبر 2011روس کی غير جانبدار مبصر تنظيم ’گولوس‘ اور روسی انٹرنيٹ اخبار ’گزيتا‘ نے ملکی پارليمانی انتخابات کے موقع پر ايک آن لائن پروجيکٹ شروع کيا ہے، جس کی مدد سے ہر روسی جلد، گمنام رہتے ہوئے اور کسی سنسر کے بغير انتخابات ميں کسی بھی دھاندلی اور بدعنوانی کی بذريعہ انٹرنيٹ اطلاع دے سکتا ہے۔ اس دوران ميڈيا ميں رپورٹنگ کی نا انصافيوں، ووٹ خريدنے اور نجی اور سرکاری اداروں ميں افسران کی طرف سے دباؤ ڈالنے کی 3500 سے زيادہ شکایات انٹرنيٹ پر شائع ہو چکی ہيں۔
روس کا شہر سینٹ پيٹرزبرگ انتخابات سے قبل اس قسم کی دھاندليوں کے ليے خاص طور پر بدنام ہے۔ اس کے ايک طالب علم نے 28 نومبر کو داخل کی جانے والی ايک شکايت ميں لکھا ہے کہ اس کی يونيورسٹی کے وائس چانسلر نے طلبہ کو مجبور کيا ہے کہ وہ اپنے آبائی مقامات پر ووٹ نہ ديں بلکہ بسوں کے ذريعے حکومتی پارٹی ’متحدہ روس‘ کے ليے ووٹ دينے جائيں۔ جن طالب علموں نے ايسا نہيں کيا اُنہيں یونیورسٹی سے نکال ديا جائے گا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر حکومتی پارٹی کا ممبر ہے۔
ماسکو ميں جرمنی کی فريڈرش ناؤمن فاؤنڈيشن کے سربراہ زاشا ٹام نے کہا کہ سرکاری محکموں کے سربراہ، شہروں کے ميئر اور بہت سے رياستی اداروں کے سربراہان حکومتی پارٹی متحدہ روس يا ’ييدیناجا روسييا‘ کو ووٹ دلانے کے ليے
اپنے ماتحتوں پر سخت دباؤ ڈالتے ہيں۔
زاشا ٹام جيسے ماہرين کا خيال ہے کہ پچھلے سالوں کی طرح اس بار بھی انتخابات ميں يہی ہتھکنڈے استعمال کيے جائيں گے: ’’انتخابات نہ تو منصفانہ اور نہ ہی آزادانہ ہوں گے۔ اگرچہ خود انتخابات ميں بھی دھاندلياں ہوتی ہيں ليکن انتخابات سے قبل ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے اور لالچ دينے کی تو بہت ہی زيادہ کوششيں کی جاتی ہيں۔‘‘
کريملن کو انتخابی نتائج ميں بڑے پيمانے پر دھاندلی کی ضرورت ہی نہيں پڑتی کيونکہ وہ ان کے نتائج پر دوسرے طريقوں کی مدد سے پہلے ہی سے اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ضوابط ايسے ہيں کہ کسی نئی پارٹی کو انتخابات کے ليے اندراج کرانے ميں بھی بہت شديد مشکلات پيش آتی ہيں۔
رپورٹ: رومان گورچارينکو / شہاب احمد صديقی
ادارت: حماد کیانی