ابوغریب جیل سے تقریباﹰ پانچ سو قیدی فرار
23 جولائی 2013حکام کے مطابق انتہائی منظم انداز میں دارالحکومت بغداد کے شمال میں ’تاجی‘ اور مغرب میں واقع ’ابو غریب‘ جیل کو نشانہ بنایا گیا۔ عسکریت پسندوں نے یہ حملہ اتوار کو رات گئے کیا، جس کے بعد دو طرفہ لڑائی تقریباﹰ دس گھنٹے تک جاری رہی۔
جہادی گروپوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے پیغامات میں ’ہزاروں قیدیوں کو آزاد‘ کروانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عراقی وزارت داخلہ کے مطابق ان دونوں جیلوں میں تقریباﹰ 10 ہزار قیدی موجود تھے۔
عراق کی پارلیمانی سکیورٹی اور دفاعی کمیٹی کے ایک رکن حکیم الزمیلی کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ابوغریب جیل سے تقریباﹰ پانچ سو قیدی فرار ہو گئے ہیں۔‘‘ اس رکن کا مزید کہنا تھا کہ فرار ہونے والے قیدی ’’دہشت گرد‘‘ تھے اور یہ کہ تاجی جیل سے کوئی بھی قیدی فرار نہیں ہوا۔
تاہم اس رکن پارلیمان اور اسی دفاعی کمیٹی کے ممبر سہوان طحٰہ نے اپنے ایک آن لائن بیان میں کہا ہے کہ دونوں جیلوں سے پانچ سو تا ایک ہزار قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق اس حملے میں کم از کم بیس سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہوئے ہیں۔ وزارت انصاف کے ایک ترجمان کے مطابق اس کارروائی میں اکیس قیدی ہلاک جبکہ پچیس زخمی ہوئے ہیں۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کتنے حملہ آور عسکریت پسند زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں یا پھر پکڑے گئے ہیں۔ جیلوں پر یہ حملہ القاعدہ کے عراق میں سرگرم گروپ کے اُس اعلان کے ایک سال بعد کیا گیا ہے، جس میں عراقی نظام انصاف کو نشانہ بنانے کا کہا گیا تھا۔ گزشتہ برس جاری ہونے والے آڈیو پیغام میں کہا گیا تھا، ’’پہلی ترجیح ہر جگہ مسلمان قیدیوں کی رہائی ہے۔ ججوں اور تفتیس کاروں اور ان کے محافظوں کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں ختم کر دیا جائے گا۔‘‘
دوسری جانب عراق کے شمال میں بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ موصل میں ایک خود کش حملہ آور نے آرمی کی گاڑی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک جبکہ دیگر سولہ زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح کرکوک میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک صوبائی کونسلر اور اس صوبے کی سلامتی سے متعلق کمیٹی کے نائب سربراہ مارے گئے ہیں۔
صوبہ انبار میں مسلح افراد کی طرف سے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار زخمی جبکہ ایک حملہ آور مارا گیا ہے۔
عراق گزشتہ کئی برسوں سے بدامنی کا شکار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تشدد کی حالیہ لہر فرقہ ورانہ فسادات میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ رواں ماہ ہونے والے مختلف حملوں میں چھ سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ رواں برس ہلاک ہونے والوں کی تعداد اٹھائیس سو سے زائد بنتی ہے۔