1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اب لال ٹماٹر کو ترسے گا پاکستان‘

عاطف توقیر
20 فروری 2019

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے خودکش کار بم حملے میں 40 سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ مگر میڈیا تو جیسے ایک جنگی میدان بن چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/3DiUf
Italien Slum in Foggia für Arbeiter aus Afrika
تصویر: Reuters/A. Bianchi

کچی عمر کی بات ہے، جماعت میں دو بچے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے الجھتے تو ہم ان کی ہاتھا پائی دیکھنے کے لیے ہر جملے پر منہ سے ایک عجیب سی آواز نکال کر اس زبانی جمع خرچ کو باقاعدہ مار دھاڑ میں بدلنے کے ترکیب میں مصروف ہوجاتے۔ کوئی ایک جملہ ادا کرتا، تو ہم دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے ’’اوووووووہ‘ کی ایک لمبی ہوک کھینچ ڈالتے، جس سے یہ باور ہو کہ یہ جملہ کتنا قبیح اور باعث تضحیک تھا اور اس کا جواب نہ دینا یا اس پر مخالف کو تھپڑ نہ جڑ دینا کیسی کم زوری کا عکاس ہو گا۔ یہ جملے جلتی پر تیل کا کام کرتے اور باتوں باتوں کی یہ لڑائی باقاعدہ ہاتھا پائی میں تبدیل ہو جاتی۔ پھر کوئی تھپڑ کھا کر پیچھے کو ہٹتا، تو ہم پھر حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر ویسی ہی ایک اور ہوک کھینچ مارتے کہ ایسے میں جواب نہ دینا تو ’غیرتِ افلاک‘ کو زمیں بوس کر ڈالے گا۔ ہر جماعت میں ’سیانے‘ موجود ہوتے ہیں، سو کوئی سیانا اٹھتا، ہا ہُو کی آوازوں کی بیچ سے ہوتے ہوئے، دونوں الجھے ہوئے لوگوں کو الگ کرتا، تو اگلا تماشا دیکھنے کے لیے ہم چپکے سے استاد کو کچھ اول فول بتا کر جماعت میں لے آتے اور باقی کا ڈرامہ ان قمیض اور بال کھینچنے والوں کی پٹائی کی صورت میں لگتا۔

پلوامہ حملے میں چالیس سے زائد بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ایک طرف تو پاکستان اور بھارت پر پھر سے جنگ کے سائے منڈلانے لگے ہیں مگر اس سے زیادہ گمبھیر صورت حال میڈیا پر دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینلز اس حملے میں کسی بھی پاکستانی عنصر کے شمولیت کو یکسر مسترد کرنے کے لیے طرح طرح کے ’دفاعی ماہرین‘ اور ’سیاسی تبصرہ نگاروں‘ کی مدد سے عوام کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ کس طرح ایک سازش کے تحت مودی سرکار نے کم زور ہوتی سیاسی ساکھ کے تناظر میں خود ہی کوئی گولا کھینچ مارا اور دوسری جانب بھارتی میڈیا ہے، جو بار بار حکومت اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر جنگ جیسے ’مقدس‘ کام سے ہاتھ کھینچا گیا، تو ’ملکی حمیت‘ اور ’غیرت قومی‘ کا جنازہ نکل جائے گا۔ بھارتی میڈیا پر بھی ریٹائرڈ جرنیلوں اور ’زیادہ دیش بھگت‘ قسم کے ماہرین کی محفلیں جمی ہوئی ہیں جو چیختی چھنگاڑتی آوازوں میں پاکستان کو ’سبق سکھانے‘ کے لیے ’بس ہم ابھی آئے‘ جیسے نعرے بلند کر رہے ہیں۔

DW Akademie Veranstaltung Medien International und Media Dialog
تصویر: DW Akademie/Philipp Böll

گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر ایک بھارتی ٹی وی کی وہ رپورٹ گردش کر رہی ہے، جس میں ایک اینکر نہایت سنجیدگی سے عوام کو بتاتی نظر آتی ہیں، ’اب لال ٹماٹر کو ترسے گا پاکستان‘۔ یعنی اگر ٹماٹر برآمد نہ ہوئے تو پاکستانی ہانڈیاں بے نور ہو جائیں گی اور کھانوں کی لطافت کا جنازہ نکل جائے گا۔

ایسے موقع پر دونوں ملکوں کا میڈیا شرارتی بچوں کی طرح منہ سے ’اوووہ‘ اور ’اُف‘ جیسے آوازیں نکال کر کسی جنگ کا تماشا دیکھنے کا متمنی تو ہے، مگر ایسی آوازیں کم کم دکھائی دے رہی ہیں، جو یہ بتا سکیں کہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ دو بچوں کے درمیان لڑائی سے مختلف ہوتی ہے۔ اب ساحر لدھیانوی بھی موجود نہیں، جو ایسے ہی کسی موقع پر یہ کہہ گئے تھے۔

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

کہتے ہیں کھانے چٹ پٹے کھانے کی عادت پڑ جائے تو ہر کچھ عرصے بعد مرچ تیکھی کرنا پڑتی ہے ورنہ سواد نہیں آتا۔ میڈیا پر بھی چٹ پٹے سیاسی مذاکرے اب ہر کچھ روز بعد پھیکے پڑتے نظر آتے ہیں اور ہر کچھ روز بعد کسی واقعے، کسی سانحے کے تناظر میں مرچ تیکھی کر کے ’سیاسی انٹرٹینمنٹ‘ میں پیدا ہوتا خلا پُر کیا جاتا ہے۔ میڈیا جِسے ’متنوع خیالات کی آزاد منڈی‘ ہونا چاہیے، وہ ’مخصوص خیالات کی منافع بخش دکان‘ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ احمد فراز کا شعر یاد آ گیا

یہ سوچ کر کے غم کے خریدار آ گئے

ہم خواب بیچنے سربازار آ گئے

اس واقعے پر دونوں ممالک کو اپنے اپنے تیئں اس واقعے کی مذمت، انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس، واقعے کی وجوہات اور محرکات اور سب سے بڑھ کر مستقبل میں ایسے کسی واقعے سے بچنے کے لیے باہمی تعاون کی سوچ اجاگر کرنے کی ضرورت تھی۔ ضرورت تھی کہ دونوں ملکوں کا میڈیا اس بات پر زور دیتا کہ جب تک باہمی رنجشیں اور مسائل سیاسی مکالمت اور ایک دوسرے کی خودمختاری کے احترام سے عبارت نہیں ہوں گے اور جب تک خطے میں طویل المدتی امن کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار نہیں کیا جائے گا، تخریبی قوتیں اپنی کارروائیوں کے لیے اس کا فائدہ اٹھاتی رہیں گی، مگر ایسا پھیکا کھانا اب تیکھے کے عادی ہو چکے عوام کیسے کھائیں گے؟ اور ویسے بھی کم سنی کا تعلق عمر سے کب ہوتا ہے، بچپنے کے لیے کوئی عمر کی قید تھوڑی ہوتی ہے؟