1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپریشن بلیو اسٹار کے تیس برس، کِرپانیں چل گئیں

امتیاز احمد6 جون 2014

آج سیکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ آج بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CDhJ
سکھوں نے اپنی کرپانیں (تلواریں) نکال لیں اور ایک دوسرے کے خلاف لاٹھیوں کا بھی استعمال کیاتصویر: picture-alliance/dpa

آج گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم کا آغاز اس وقت ہوا، جب علیحدگی پسند سکھوں نے اپنے لیے ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگانا شروع کیے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سکھوں نے اپنی کرپانیں (تلواریں) نکال لیں اور ایک دوسرے کے خلاف لاٹھیوں کا بھی استعمال کیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس لڑائی میں کم از کم چھ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ گولڈن ٹیمپل کی انتظامیہ کی ایک ترجمان کرن جوتی کنور کے مطابق اس لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا، جب 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب جاری تھی۔ اطلاعات کے مطابق سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے اور بعدازاں انہیں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔

شمالی بھارتی شہر امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت سکھوں کے خلاف ہونے والی اس فوجی کارروائی کا نام ’’آپریشن بلیو اسٹار‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے اور ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ اس حکومتی کارروائی کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اپنے ہی ایک سکھ محافظ کے ہاتھوں قتل ہو گئی تھیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا تھا۔ مختلف سکھ گروپوں کا موقف ہے کہ یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ان سکھ کش فسادات کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر بھی ہوئے تھے۔

آزاد وطن کی ماند پڑتی ہوئی تحریک

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف اور پنجاب کے مشہور سکھ سُکھدیو سندھو کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘

تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی کی تحریک اور ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔

اپنے لیے ایک آزاد سکھ ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والی سکھ تنظیم دل خالصہ کے ایک ترجمان کنور پال سنگھ کا کہنا تھا کہ تارکین وطن اب بھی ’’خالصتان‘‘ تحریک کے ساتھ منسلک ہیں اور فنڈز فراہم کرتے ہیں۔