1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آٹھ فروری کے انتخابات، کراچی میں خونريزی کا خدشہ؟

29 جنوری 2024

عام انتخابات کے قریب آتے ہی کراچی میں سیاسی درجہ حرارت بڑھنے لگا ہے۔ شہر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان پرتشدد رویہ تک دیکھنے میں آ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4bneb
Pakistan I Demonstration zur Forderung der Freilassung des inhaftierten ehemaligen pakistanischen Premierministers Imran Khan
تصویر: Asif Hassan/AFP

 انتخابات سے قبل مختلف جلسوں میں سیاسی قیادت اپنے زوربیان سے مخالفین پر طنز وتنقید کے نشتر برسا رہی ہے جبکہ دفاتر سے لے کر چائے کے ڈھابوں تک میں سیاسی بحث ومباحثے ہو رہے ہیں۔ سیاسی کشیدگی مباحث تک محدود رہتی تو اور بات تھی، مگر کراچی میں چند پرتشدد واقعات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

انتخابات 2024ء: پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں فاتح کون ہو گا؟

تاریخ میں پرویز مشرف کو کیسے یاد رکھا جائے گا؟

کراچی میں کشیدگی کی فضا برقرار

پاکستان کے معاشی حب اور منی پاکستان کہلانے والے شہر کراچی میں اس وقت سیاسی فضا خاصی کشیدہ ہے۔گزشتہ روز تحریک انصاف کی ریلی پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ پولیس کی جانب سے شیلنگ کے نتیجے میں علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ پولیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج پر ریلی کے شرکاء نے مشتعل ہوکر پولیس پر پتھراؤ کر دیا۔ مظاہرین کے پتھراؤ سے ایس ایچ اوبوٹ بیسن سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ دوسری طرف پولیس نے 20 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ دوسری جانب گزشتہ شب ضلع وسطی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنان میں مسلح تصادم ہوا۔ تصادم میں فائرنگ سے ایم کیوایم پاکستان کا ایک کارکن 40 سالہ فرازاحمد قریشی ہلاک جبکہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والا 22 محمد طلحہ زخمی ہوا۔ اس دوران دوگاڑیوں کو بھی نذرآتش کیا گیا۔

پولیس کا مؤقف اور ابتدائی تحقیقات

ایس ایچ او گلبہار کے مطابق علاقے میں قائم ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر کے سامنے سے پیپلزپارٹی کی ریلی گزرنے کے دوران دونوں جانب سے نعرے بازی کا سلسلہ جاری تھا کہ اس دوران اشتعال انگیزی کے باعث معاملہ لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہوگیا۔ پولیس سرجن سمعیہ سید کے مطابق فراز احمد قریشی کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ مقتول کے سرمیں گولی لگنے سے موقع پر ہی موت ہوگئی تھی جبکہ زخمی محمد طلحہ کے بائیں بازوپرگولی لگی تھی۔

گزشتہ روز پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیںتصویر: Asif Hassan/AFP

واقعے پر ایم کیوایم قیادت کا ردعمل

ایم کیوایم پاکستان کے رہنما مصطفٰی کمال نے ڈوئچے ويلے سے گفتگو کرتے ہوئے، واقعے کا ذمہ دار پیپلزپارٹی کے رہنما اورسابق وزیر ڈاکٹرعاصم حسين کو قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہمارے کارکن کے قتل کے ذمہ دار ڈاکٹر عاصم حسين ہیں۔ بعد ازاں کراچی میں ایم کیو ایم رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سندھ میں ''لاسٹ لائن آف ڈیفنس‘ ہے، یہ لوگ پاکستان کو اندر سے ختم کر رہے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے دعویٰ کیا تھا کہ پیپلزپارٹی کے دہشت گردوں نے سیدھی فائرنگ کی، جس کی ویڈیوز موجود ہیں۔ دوسری جانب خالد مقبول صدیقی کہا کہ شہر میں بدامنی کی ذمہ دار ایم کیو ایم نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کا مؤقف اورردعمل

واقعے پر ردعمل دیتے ہوئےپیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے سربراہ سعید غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتايا کہ ایم کیو ایم کی صورتحال شہر میں بہت خراب ہے۔ ایم کیو ایم نے جو کچھ کیا، ہر چیز کی ویڈیو موجود ہے۔ ویڈیوز میں واضح ہورہا ہے کہ یہ واقعہ کس طرح پیش آیا۔ سعید غنی نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کھلے عام لڑنے جھگڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایم کیوایم پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکرز کو دھمکیاں دے رہی ہے اور الیکشن مہم چلانے میں مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ سعيد غنی نے کل کے واقعہ کی سندھ ہائی کورٹ کے جج سے تحقيقات کا مطالبہ بھی کيا۔

Pakistan’s general elections
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے ہیںتصویر: DW

ایم کیوایم منحرفین کی پیپلزپارٹی میں شمولیت

ضلع وسطی سے ایم کیوایم کے ٹکٹ پر کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہونے والے وسیم قریشی پیپلز پارٹی میں شمولیت اخیتارکر چکے ہیں اس کے علاوہ بھی ضلع وسطی میں ایم کیوایم کے تنظیمی عہدیداران پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ حالیہ عرصے میں ایم کیوایم کے سابق رہنماؤں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کی بات کریں توسابق رکن اسمبلی رضا ہارون، انیس ایڈوکیٹ ،  مزمل قریشی، شیراز وحید، خواجہ سہیل منصور، علی راشد اور سمیتا افضال سمیت متعدد دیگر رہنما بھی ایم کیو ایم کو خیر باد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔

الیکشن میں تاخیر ممکن ہو سکتی ہے؟

ایم کیوایم سے راہیں جدا کرنے کے محرکات

ایک جانب ایم کیوایم کے لندن قیادت سے راہیں جداکر لینے اورپھر دھڑے بندیوں کے بعد کافی تعداد میں سیاسی کارکنان نے ایم کیوایم یا سیاست سے کنارہ کشی اختیارکر لی تھی۔ اب جبکہ ایم کیوایم میں مصطفیٰ کمال اورفاروق ستار کی واپسی ہوئی تو بھی بہت سے رہنماؤں نے یا تو جماعت سے علیحدگی اختیارکر لی یا پھر سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرلی ہے۔ لندن قیادت سے علیحدگی کے بعد سے ایم کیوایم قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ جہاں ایک زمانے میں رابطہ کمیٹی ہی تنظیم کے اہم فیصلے لیتی تھی اب وہ غیرفعال نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارکنان اورعہدیداروں میں پارٹی کی قیادت سے شکوے شکایت بڑھتے جارہے ہیں۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالات یہی رہے تو کراچی میں انتخابات کا پرامن انعقاد حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ ہوگا۔ ايسے حالات ميں جب پورے صوبہ سندھ  ميں  نگراں وزير اعلیٰ نے لائسنس يافتہ اسلحہ لے کر چلنے اور اس کی نمائش پر پابندی لگا رکھی ہے، گزشتہ روز جديد اسلحے کے آزادانہ استعمال نے سيکورٹی کے حوالے سے خدشات پيدا کر ديے ہيں؟