آسٹریلیا میں سیلاب: تباہی بھی اور امید بھی
23 ستمبر 2010آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں مرے ڈارلنگ طاس کا علاقہ پورے ملک کو خوراک فراہم کرنے کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ فرانس اور اسپین کے مشترکہ رقبے کے برابر سائز کا ہے۔ حال ہی میں آنے والے سیلاب کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ اِس علاقے کو درپیش خطرات کو روکا جا سکے گا اور یہ علاقہ آئندہ بھی زرخیز رہے گا۔ سوال لیکن یہ ہے کہ سیلاب ایک آفت کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کے لئے امید کی علامت کیسے بن سکتا ہے؟
جہاں آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کے ہزارہا شہریوں کو گزشتہ پندرہ برسوں سے زیادہ عرصے کے شدید ترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہاں مکمل طور پر خشک ہو جانے والے مرے ڈارلنگ طاس کے لئے ہمسایہ ریاست سے آنے والے پانی کی بہتات انتہائی سود مند ثابت ہو رہی ہے۔
ماہی گیر ہینری جونز نے آسٹریلوی ریڈیو میں بتایا کہ ایک ملین مربع کلومیٹر کے علاقے میں کچھ عرصے کے اندر اندر نہ صرف پورا نباتاتی نظام پھر سے کھل اٹھا ہے بلکہ انواع و اقسام کے جانوروں کو بھی گویا نئی زندگی مل گئی ہے:’’ہم، جو ایک مکمل تباہی سے دوچار تھے، اب پھر سے معمول کی حالت میں آ گئے ہیں۔ اُن علاقوں میں، جہاں پہلے کبھی پانی ہوا کرتا تھا، اب پھر سے پانی آ چکا ہے۔ پرندے آ آ کر آباد ہو رہے ہیں، مچھلیاں پرورش پا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ناقابلِ یقین ہے۔ اور صرف جانور ہی سرگرم نظر نہیں آتے بلکہ انسان بھی یوں گھوم پھر رہے ہیں، جیسے اُن کی لاٹری نکل آئی ہو۔‘‘
ریاست وکٹوریا کے شمالی حصے میں آنے والا سیلاب بہت زیادہ نقصان کا باعث بنا، سینکڑوں مکانات تباہ ہو گئے تاہم حکام کے اندازوں کے مطابق اِسی سیلاب کے نتیجے میں آنے والے ہفتوں کے دوران نو سو ارب لیٹر سے زیادہ پانی بہہ کر جنوبی آسٹریلیا کے بڑی جھیلوں والے علاقوں میں جا پہنچا۔
مرے ڈارلنگ طاس کے لئے قائم محکمے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ ڈریورمین بتاتے ہیں کہ اِن حالات میں کئی برسوں کے بعد پہلی مرتبہ آسٹریلیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک یعنی مرے کے ڈیلٹا سے پانی ایک بار پھر سمندر میں جائے گا:’’پورا مرے ڈارلنگ طاس 2001ء سے ایک بند نظام کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہاں سے کوئی پانی جا کر سمندر میں نہیں گرتا تھا۔ نو سال تک کی خشک سالی کے بعد یہ بلاشبہ ایک امید افزا علامت ہے۔‘‘
تاہم تحفظ ماحول کے علمبردار بہت زیادہ جوش و خروش سے خبردار کر رہے ہیں۔ ماہرِ ماحولیات ڈیویڈ پیٹن کا کہنا ہے کہ وکٹوریا میں آنے والا سیلابی پانی گزر جانے کے بعد پانی کی آمد پھر سے بند ہو جائے گی۔ آسٹریلوی ریڈیو میں اُنہوں نے کہا کہ ایسے میں مرے ڈارلنگ طاس کے علاقے میں کھل اُٹھنے والی زندگی ایک بار پھر اُسی تیزی سے ختم بھی ہو سکتی ہے:’’یہ پانی مرے ڈارلنگ طاس کے لئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک سنہری موقع ہے لیکن اگر آنے والے برسوں میں یہاں پانی کی مسلسل آمد کا کوئی اہتمام نہ ہو سکا، تو یہ سارا علاقہ پھر سے ویسا ہی ہو جائے گا، جیسا کہ یہ گزرے کئی برسوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘‘
اِس ماہرِ ماحولیات کی باتیں درست ثابت ہوئیں، تو مرے ڈارلنگ طاس کی آسٹریلیا بھر کو خوراک فراہم کرنے والا علاقہ ہونے کی باتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خواب بن کر رہ جائیں گی۔
رپورٹ: بیرنڈ مُش بوروفسکا / امجد علی
ادارت:افسر اعوان