1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریلیا: اعصابی بیماری پارکنسز کے خلاف ہائیڈرو جل تیار

13 اگست 2021

آسٹریلوی محققین نے ایک ایسا ہائیڈرو جل بنایا ہے جو ایک بار کے استعمال سے پارکنسنز (رعشہ) اور ممکنہ طور پر دیگر اعصابی بیماریوں کے خلاف بھی مفید ثابت ہوگا۔

https://p.dw.com/p/3yqDL
 Australien | Professor David Nisbet | Parkinson-Krankheit ANU
تصویر: ANU/REUTERS

آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے محققین کی ٹیم کے ایک رکن نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس یونیورسٹی کے ' فلوری انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنس اینڈ مینٹل ہیلتھ‘ کے تعاون سے پارکنسنز اور دیگر اعصابی عارضوں کے علاج کے لیے ایک ایسا ہائیڈرو جل تیار کیا گیا ہے جو امائنو ایسڈ سے بنا ہے اور اسے دماغ میں انجیکٹ کر کے دماغی کے ان حصوں کا علاج کیا جا سکتا ہے جن میں موجود مواد فعال نہیں رہا۔

ہائیڈرو جل کیا ہے؟

محققین نے اس ہائیڈرو جل کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جل ہلنے سے مائع میں تبدیل ہو جاتا ہے اس طرح اسے دماغ میں خون کی باریک رگوں میں داخل کرنا آسان ہے۔ یہ جل رگوں میں داخل ہونے کے بعد اپنی اصلی شکل میں جمنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح دماغ کے زخمی حصوں تک پہنچنے والے اسٹم سیلز کو با آسانی تبدیل کر دیتا ہے۔

ایمبریو کی کلوننگ میں تاریخی کامیابی

 

Symbolbild Geruchstest bei Parkinson
پاکنسنز کے مریضوں کا ’سونگھنے کا مخصوص ٹیسٹ‘ بھی کیا جاتا ہےتصویر: fotolia/MPower223

آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ نسبٹ کہتے ہیں ،'' اس طریقہ علاج کو گیم چینجر اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ بس ایک بار بروئے کار لانے والا جل ہے یعنی اسے صرف ایک بار استعمال کرنے سے افادہ متوقع ہے۔‘‘ 

  پروفیسر ڈیوڈ نسبٹ کا مزید کہنا تھا،'' متوقع طور پر پارکنسنز کی بیماری میں مبتلا مریض ہسپتال آئے گا، اُس کے دماغ میں یہ ہائیڈرو جل انجکشن کی طرح صرف ایک بار ڈالا جائے گا اور آئندہ برسوں کے لیے اس مریض کے اندر اس اعصابی عارضے کی کئی علامات میں واضح کمی آئے گی۔‘‘ 

الزائمرکے مرض کی تشخیص مونگ پھلی کے مکھن سے؟

جل کا تجربہ

آسٹریلیا کے محققین کی ایجاد اس ہائیڈرو جل کا تجربہ اب تک صرف جانوروں پر کیا گیا ہے۔ چوہوں پر کیے جانے والے ان تجربات کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ اس نے ان چوہوں میں پارکنسسنز کی بیماری کے خلاف واضح اثرات مرتب کیے۔ پروفیسر نسبٹ نے امید ظاہر کی ہے کہ اس امر کے یقینی ہونے کے بعد کہ اس کا انسانوں کے لیے استعمال ہر قسم کے خطرات اور پیچیدگیوں سے محفوظ ہے، اس جل کا کلینیکل تجربہ آئندہ 5 سالوں کے دوران شروع ہو جائے گا۔

Symbolbild - Parkinson: Zitternde Hände
رعشہ یا ہاتھوں کا کانپنا پارکنسز کی علامت مانی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl

پروفیسر نسبٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نئے ہائیڈرو جل کی پیداوار نسبتاً سستی ہے اور اسے آسانی سے بڑے پیمانے پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا اُس وقت اور بھی سہل ہو جائے گا جب یہ تمام کلینیکس سے منظور ہو جائے گا۔

ڈمینشیا ہو جائے، تو ورزش کام نہیں آتی

پارکنسنز کی علامات

پارکنسنز یا رعشہ ایک اعصابی بیماری ہے جو ہاتھوں پبروں اور کئی کیسز میں جسم کے دیگر حصوں  میں بھی غیر معمولی جنبش پیدا کر دیتا ہے جس کے سبب چلنے پھرنے میں دشواری اور جسمانی اعضاء کے مابین ہم آہنگی اور توازن باقی نہیں رہتا۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ یہ جل فالج اور دیگر اعصابی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

آسٹریلیا میں قریب ایک لاکھ افراد پارکنسنز میں مبتلا ہیں جبکہ دنیا بھر میں پارکنسنز کیسز کی تعداد 10 ملین سے زائد بتائی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے اس عارضے کا مکمل علاج موجود نہیں ہے۔

ک م/ ع ح ( روئٹرز )