1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طالبان کابل کو کفن پہنا رہے ہیں‘

7 ستمبر 2021

افغانستان کے ایک آرٹ ایکٹیوسٹ عمید شریفی نے سقوط کابل کے بعد انتہا پسند طالبان کی جانب سے تمام تراسٹریٹ آرٹ پر سفیدی پھیر کرانہیں پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرنے کے عمل کو ماضی کی خوفناک یادیں تازہ کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/401Ua
Afghanistan | Wandgemälde in Kabul werden überstrichen
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

افغانستان کے ایک ایسے آرٹسٹ جنہوں نے جنگ، تشدد، آگ، خون اور بربادی کا منظر پیش کرنے والی کابل کی سڑکوں، گلیوں اور دیواروں کو زندگی اور خوش امیدی کے رنگوں سے سجانے میں برسوں بتائے، ان کی تمام محنت پر پانی پھیرتے ہوئے طالبان نے انہیں اپنے پروپیگنڈا نعروں سے رنگ دیا ہے۔ مسلم انتہا پسندوں کے گروپ طالبان کے افغان دارالحکومت کابل پر قبضے کے چند ہفتوں کے اندر کابل اور گرد و نواح کی شکل ہی تبدیل ہو چُکی ہے۔

اسٹریٹ آرٹسٹ شریف کے لیے صدمہ

طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالتے ہی شہر کی دیواروں، سڑکوں اور گلی کوچوں میں اپنے کارکنوں کو تعینات کر دیا جنہوں نے تیزی سے عمید شریفی کے آرٹ پر سفیدی پھیرنے اور ان کے نقوش مٹا کر ان پر طالبان کے پروپیگنڈا پر مشتمل نعروں کو ثبت کرنا شروع کر دیا۔ اس بارے میں پیر کو خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو متحدہ عرب امارت سے ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے شریفی نے کہا کہ انہیں طالبان کے کارکنوں کی طرف سے تمام آرٹ پر سفیدی پھیرتا دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ افغانستان میں انتہاپسندی کے فروغ اور کٹر نظریات کو دوبارہ نافذ کرنے کا سلسلہ شروع ہو چُکا ہے۔ ان کے بقول،'' اس سے میرے ذہن میں جو تصویر آئی وہ یہ تھی کہ طالبان کابل پر کفن ڈال رہے ہیں۔‘‘

افغانستان: بامیان میں بم دھماکوں سے متعدد ہلاک

Afghanistan | Wandgemälde in Kabul werden überstrichen
کابل کی دیواروں پر بنے نقوش پر سفیدی پھیری جا رہی ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

2014 ء میں افغانستان میں 'آرٹ لورڈز‘ نامی ایک تحریک شروع ہوئی تھی جس میں شریفی اور ان کے دیگر فنکار ساتھیوں سمیت رضاکاروں نے مل کر افغان معاشرے میں ایک سماجی تبدیلی کا بیڑا اُٹھایا تھا جس کا مقصد فن اور فنکاری کی مدد سے معاشرے کی سخت گیر اور انتہا پسندانہ شکل کو تبدیل کر کے اسے مثبت اور امید افزا رنگوں سے تبدیل کرنا تھا۔ اس پیشقدمی کے تحت افغانستان بھر میں دو ہزار دو سو رنگ برنگی تصاویر والی دیواریں بنائی گئی تھیں۔ اب جبکہ طالبان نے کابل اور دیگر علاقوں پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے، طالبان عناصر کی طرف سے 'آرٹ لورڈز‘ کے تمام فن پاروں کو مٹانے، انہیں تباہ کرنے کا کام شروع ہو چُکا ہے، تب بھی شریفی نے کہا ہے کہ وہ اپنی مہم جاری رکھیں گے۔ 34 سالہ آرٹ ایکٹیوسٹ عمید شریفی نے کہا،'' ہم کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ طالبان شرمندہ ہوں اور دنیا ہماری سُنے۔‘‘

جن دیواروں پر بنے نقوش  طالبان نے مٹا دیے ہیں ان میں سے ایک پر افغانسنان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے شریک بانی عبدالغنی برادر کو افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کی 2020 ء کی ڈیل پر دستخط کے بعد مصافحہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

  

Afghanistan Kabul | Künstlerkollektiv Artlords
آرٹ ایکٹیوسٹ عمید شریفی تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

'آرٹ لورڈز‘ کا طنزیہ فن

عمید شریفی 'آرٹ لورڈز‘ کے شریک بانی ہیں۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے آرٹ یا فن کو امن ، سماجی انصاف اور احتساب کے لیے مہم کا ذریعہ بنایا تھا۔ یہ فنکار اکثر و بیشتر افغانستان کے طاقتور عناصر، جن میں وار لارڈز بھی شامل ہیں اور دیگر مبنیہ بدعنوان حکومتی اہلکاروں کے ایسے خاکے بناتے تھے جو ان معروف شخصیات کے لیے شرمندگی کا سبب بنتے۔ تاہم ان کے فن کے ذریعے افغانستان کے ہیروز کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا اور تشدد کی بجائے مکالمت اور خواتین کے حقوق کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اپنی ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان 'آرٹ لورڈز‘ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں اور انتہا پسند مسلمانوں نے انہیں کافر تک قرار دیا۔ اس کے باوجود یہ فنکاروں اور ایکٹیوسٹس کبھی نادم نہ ہوئے اور آخر وقت تک انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

بامیان کی تاریخی غاریں، بے گھر افغانوں کی جائے پناہ

Afghanistan Kabul | Künstlerkollektiv Artlords
’آرٹ لورڈز‘ گروپ نے کابل کی ایک دیوار پر تمام بچوں کے لیے مساوی حقوق کا موضوع اپنی اس تصویر میں اجاگر کیا تھاتصویر: Jawed Kargar/EPA/picture alliance

15 اگست کو کیا ہوا؟

گزشتہ ماہ یعنی اگست کی 15 تاریخ کو عمید شریفی اور ان کے پانچ ساتھی کابل کی ایک سرکاری عمارت پر کام کرنے گئے اور وہاں کی بیرونی دیوار پر کام کر رہے تھے کہ چند گھنٹوں کے اندر انہوں نے سرکاری دفاتر سے بہت سے افراد کو گھبرائے ہوئے باہر نکلتے دیکھا۔ فوراً ہی انہوں نے 'آرٹ لارڈز گیلری‘ میں واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ شریفی کے بقول،'' تمام سڑکیں بند تھیں۔ ہر طرف سے پولیس اور فوج آ رہی تھی، ہر کوئی اپنی گاڑی چھوڑ کر بھاگ رہا تھا۔‘‘ شریفی اور ان کا گروپ جب بالآخر آرٹ گیلری میں پہنچا تو انہیں سقوط کابل کی خبر ملی۔‘‘

 ماضی کی یاد تازہ

عمید شریفی 1996 ء میں 10 برس کے تھے جب انتہا پسند طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے۔ شریفی نے طالبان کی سخت گیر حکومت کی بہیمانہ حکمرانی دیکھی تھی۔ پھر پانچ برس بعد امریکی قیادت والی افواج نے طالبان کا تختہ اُلٹا اور ملک پر قبضہ کر لیا۔ اس مرتبہ کابل میں طالبان کے کنٹرول کے بارے میں شریفی کہتے ہیں،'' میں توقع کرتا ہوں کہ بہت کچھ نہیں بدلا ہے۔‘‘ شریفی کی طرح بہت سے دیگر افغان باشندے موجودہ طالبان حکمرانوں کی طرف سے تبدیلیوں کے دعوؤں کو شکوک و شبے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

تاریخ کی تعمیر نو؟ بدھا کے مجسمے دوبارہ تعمیر کیے جائیں یا نہیں

Afghanistan Kabul | Künstlerkollektiv Artlords
2018 ء میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تصویر دیوار پر بنانے والے آرٹسٹ اب خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیںتصویر: Massoud Hossaini/AP Photo/picture alliance

ان میں سے بہت ہی کم باشندے طالبان دور میں سر عام پھانسی، تفریح پر مکمل پابندیوں بشمول ٹیلی وژن اور کیسٹ پلیئرز کے استعمال پر سخت ترین پابندیوں کو بھول پائے ہیں۔ شریفی نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا،'' مجھے کابل کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں کھلے عام سزائیں، جن میں سر قلم کرنے اور مختلف جرائم کی سزا کے طور پر جسمانی اعضا کا کاٹا جانا بہت واضح طریقے سے یاد ہے۔‘‘

عمید شریفی کا مزید کہنا تھا،'' جب میں اپنی سائیکل پر سوار ہو کر مرکزی بازار جایا کرتا تھا، مجھے رستے میں بہت سارے ٹیلی وژن سیٹس، کیسٹ ریکارڈرز اور تمام ٹیپس وغیرہ ٹوٹے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ طالبان کے سابقہ دور میں کوئی مقامی میڈیا نہیں تھا اور انسانوں اور جانوروں کی تصاویر پر پابندی عائد تھی۔ ‘‘

USA Afghanistan Geschenk UN Gemälde Antonio Guterres
عمید شریفی کی چند تصویریں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کی عمارت کے لیے بطور تحفہ پیش کی جا چُکی ہیںتصویر: Lev Radin/Pacific Press/picture alliance

افغان دارالحکومت پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی ہزاروں افغان باشندوں نے کابل ہوائی اڈے پہنچنا شروع کر دیا، وہ اپنی اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات سے خوفزدہ تھے۔ فرار کی کوشش کرنے والوں میں عمید شریفی جیسے متعدد فنکار بھی شامل ہیں۔ شریفی کے بقول،'' فرار یا وطن چھوڑنا ایک بہت ہی مشکل انتخاب ہوتا ہے۔ میری دعا ہے کہ کبھی کسی کو ان حالات سے گزرنا نہ پڑے جن سے ہم گزرے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،'' افغانستان میرا گھرہے یہ میری پہچان ہے۔ میں اپنی تمام جڑیں یہاں سے اکھاڑ کر کسی دوسرے ملک میں جاکر انہیں اگانے اور نئے سرے سے خود کو آباد نہیں کر سکتا۔‘‘  شریفی کی بنیادی تشویش اور خوف موت نہیں ہے کیونکہ وہ برسوں سے موت کی دھمکیوں کے ساتھ زندگی گزار چُکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ اُن کی کوئی آواز باقی نہیں رہ پائے گی۔

ک م/ ع ت (اے ایف پی)