آبنائے ہرمز کی بندش برداشت نہیں کریں گے، امریکہ
29 دسمبر 2011خلیجی عرب ریاست بحرین میں متعینہ پانچویں امریکی بیڑے کی ایک ترجمان نے بدھ کو کہا کہ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز کا آبی راستہ دُنیا کی خوشحالی کے لیے ناگزیر حیثیت کا حامل ہے اور اِس کی ناکہ بندی برداشت نہیں کی جائے گی۔
دُنیا بھر میں معدنی تیل کا 6/1 حصہ آبنائے ہرمز ہی کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آئل ٹینکرز روزانہ تقریباً پندرہ ملین بیرل خام تیل لے کر یہاں سے گزرتے ہیں۔
خود ایران دُنیا کا تیل پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے، جہاں روزانہ چار ملین بیرل تیل نکالا جاتا ہے۔ ایران کو یہی خطرہ ہے کہ امریکہ اور اُس کے حلیفوں کی جانب سے تہران حکومت کے خلاف نئی پابندیوں کا نشانہ تہران حکومت کی تیل کی برآمدات بھی بن سکتی ہیں، جو کہ اس ملک کے لیے زرِمبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اِسی خدشے کے پیشِ نظر نائب ایرانی صدر محمد رضا رحیمی نے یہ آبی رستہ بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اِس ایرانی دھمکی کے ایک ہی روز بعد ایرانی بحریہ کے سربراہ ایڈ مرل حبیب اللہ سایاری نے بھی کہا کہ ایران کے لیے اِس آبی راستے کو آمد و رفت کے لیے بند کر دینا ’بہت ہی آسان‘ ہے کیونکہ ’یہ اہم اسٹریٹیجک آبی راستہ پوری طرح سے ایران کے کنٹرول میں ہے‘۔
دو روز میں اِس دوسری ایرانی تنبیہہ پر امریکہ کی جانب سے فوری رد عمل ظاہر کیا گیا۔ امریکی محکمہء دفاع کے پریس سیکرٹری جارج لٹل نے کہا کہ اِس معاملے کا تعلق خطے میں سلامتی اور استحکام کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کے اہم اقتصادی مفادات سے بھی ہے: ’’آبنائے ہرمز استعمال کرنے والے بحری جہازوں کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے ایرانی دھمکی کو ’محض جذباتی بیان بازی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ایران کی جانب سے اس طرح کے بیانات پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں‘۔
اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے فوجی کاروائی کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کے پیشِ نظر ایران نے بھی حالیہ مہینوں کے دوران زیادہ سے زیادہ جارحانہ طرزِ عمل ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے روز سے ایران نے آبنائے ہرمز اور خلیج فارس ہی کے علاقے میں اپنی جامع فوجی مشقیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔
بدھ کو فرانس نے تہران حکومت پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے اور تمام بحری جہازوں کو بلا روک ٹوک اِس آبی راستے سے گزرنے دے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ ایران اپنے یورینیم افزودہ کرنے کے ایٹمی پروگرام کی آڑ میں، جسے ایران پُر امن قرار دیتا ہے، جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تہران حکومت اس الزام کو رَد کرتی ہے۔
یورپی یونین اور جرمنی نے زور دے کر کہا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی تنازعے میں تہران کے خلاف معدنی تیل اور مالیات کے شعبوں میں مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: شادی خان سیف