1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’آئی ایس‘ نے نمرود پر بلڈوزر چلا دیے

عابد حسین6 مارچ 2015

شورش زدہ ملک عراق کے قدیمی و تمدنی شہر نمرود کو انتہا پسند جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ہاتھوں مکمل تباہی و بربادی کا سامنا ہے۔ آشوری تہذیب کے اس اہم شہر کو ’دولت اسلامیہ‘ نے مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EmXR
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Baldwin

عراقی دریاؤں دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے کو قدیمی تہذیبوں کا گہوارا خیال کیا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں بابلی، کلدانی، سمیری اور آشوری اقوام نے جنم لے کر ہزاروں سال قبل انسانی تمدن و ثقافت پر انمٹ نقوش چھوڑے تھے۔ اُسی قدیمی دور کی ایک تہذیب آشوری تھی اور اِسی قوم نے تقریباً تین ہزار برس قبل نمرود نامی شہر کو آباد کیا تھا۔ اِس شہر کی باقیات عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے دجلہ کے کنارے پر موجود ہیں۔ یہ شہر آشوری تہذیب کے ماتھے کا جھومر خیال کیا جاتا تھا۔

نمرود شہر سے دستیاب ہونے والے اہم نوادرات عراقی دارالحکومت کے مرکزی عجائب گھر میں بھی منتقل کیے گئے تھے۔ پتھریلی زمین پر بنائے گئے لاماسو کے مجسمے زمین میں چھپے رہنے کے باوجود قائم رہے، لیکن چھبیس برس قبل بازیاب کیے جانے کے بعد اب جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے بلڈوزر انسانی تاریخ کے اہم خزانے کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں۔ عراق کی نوادرات کی وزارت نے بھی فیس بُک پر نمرود پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حملے کی تصدیق کی ہے۔

Löwenstatue in Al Nimrud Irak
’اسلامک اسٹیٹ‘ کے انتہا پسند جہادی اِس سے قبل موصل کے نواح میں واقع نرغل گیٹ کے قدیمی مجسموں کو بھی تباہ کر چکے ہیںتصویر: AP

عراق کے معروف ماہر آثارقدیمہ عبدالامیر ہمدانی نے افسوس کے ساتھ کہا کہ جہادی عراق کے تاریخی و تمدنی خزانے کو تلف کرنے کے منفی رویے پر مسلسل عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمدانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ان جہادیوں کا اگلا نشانہ نینوا صوبے کا قدیمی شہر الحضر ہو سکتا ہے۔ الحضر بھی تین ہزار برس قدیمی شہر ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ نمرود شہر کے قیمتی نوادرات کو بازیابی کے بعد جہاں بغداد کے عجائب گھر منتقل کیا گیا تھا، وہیں خاصی بڑی تعداد میں مجسمے اور قیمتی زیورات موصل کے ساتھ ساتھ پیرس بھی منتقل کیے گئے تھے۔

موصل میں رکھے گئے مجسمے پہلے ہی تباہ کیے جا چکے ہیں۔ نمرود میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں نے پہلے قیمتی نوادارات لوٹے ہیں اور پھر پروں والے اور لاماسو کہلانے والے اُن بیلوں کے مجسموں کو ملیا میٹ کرنا شروع کیا ہے، جن کے سر انسانوں کی طرح ہیں۔

اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کے عراق میں تعینات اہلکار ایکسل پلاتے نے بھی نمرود شہر کی تباہی شروع کرنے پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی مذمت کی ہے۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل ایریانا بوکوفا نے ایک بار پھر سکیورٹی کونسل کی ہنگامی میٹنگ طلب کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ انہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ موصل کے عجائب گھر میں رکھے گئے تاریخی و قدیمی مجسموں کی تباہی کا بھی نوٹس لے۔

Irak Archäologie Nimrud
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کے عراق میں تعینات اہلکار ایکسل پلاتے نے بھی نمرود شہر کی تباہی شروع کرنے پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی مذمت کی ہےتصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Tips Images

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے انتہا پسند جہادی اِس سے قبل موصل کے نواح میں واقع نرغل گیٹ کے قدیمی مجسموں کو بھی تباہ کر چکے ہیں۔ عراق کے قدیمی آثار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق میں بارہ ہزار کے قریب قدیمی مقامات میں سے اٹھارہ سو پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا قبضہ ہے اور وہ بتدریج ان کی تباہی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

نمرود شہر کو بیسویں صدی کے دوران آثارقدیمہ کے ایک انتہائی اہم مقام کی بازیابی قرار دیا گیا تھا۔ اِس مقام کی کھدائی سن 1988 میں مکمل کی گئی تھی۔ کھدائی کی تکمیل کے بعد اہم مجسمے اور قدیمی زیورات صدام دور میں بغداد کے میوزیم کی زینت بنائے گئے تھے۔ عراق میں امریکی فوج کشی کے بعد بھی اِن قیمتی نوادرات کو تحفظ دیا گیا اور یہ لوٹ مار سےبچ گئے تھے۔ تب ان نوادرات کو عراق کے سینٹرل بینک میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

ماہرین نے نمرود شہر کی تباہی کو افغان علاقے بامیان میں طالبان کے ہاتھوں بدھا کے بڑے مجسمے کی تباہی کے مساوی قرار دیا ہے۔