1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس آئی ایس کی مالی معاونت کون کرتا ہے ؟

عدنان اسحاق19 جون 2014

عراقی شہر موصل پر قبضے کے بعد عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ شام نے وہاں کے مرکزی بینک سے تقریباً 420 ملین امریکی ڈالر چرا لیے تھے۔ اندازہ ہے کہ اس طرح اس شدت پسند گروپ کے پاس دو ارب ڈالر جمع ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CM1f
Screenshot Instagram ISIS

عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے اپنے ایک تازہ بیان میں شدت پسند تنظیم آئی ایس آئی ایس کی پشت پناہی کی ذمہ داری سعودی عرب پر عائد کی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی ایس کو ریاض حکومت کی مالی اور اخلاقی حمایت حاصل ہے۔ سعودی عرب کے حلیف ملک امریکا نے عراقی وزیر اعظم کے ان بیانات کو مسترد کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان جین پساکی ’ Jen Psaki ‘ کے بقول نوری المالکی کا یہ بیان غیر واضح اور تضحیک آمیز ہے۔

گنٹر مائیر جرمن شہر مائنز کی یونیورسٹی سے وابستہ تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ آئی ایس آئی ایس کو مالی تعاون فراہم کرنے کا اہم ترین ذریعہ ابھی تک خلیجی ممالک رہے ہیں۔ ان میں سعودی عرب، قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔‘‘

مائر مزید کہتے ہیں کہ ان ریاستوں کے سنی رہنما شامی صدر بشارالاسد کے خلاف اس تنظیم کے جنگجوؤں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ شام میں سنیوں کی اکثریت ہے اور ملک پر شیعہ اقلیت کی حکومت ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایس میں سب سے زیادہ جنگجوؤں کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور واپس لوٹنے پر یہ شدت پسند سعودی حکومت کے خلاف بھی اپنی کارروائیاں شروع کر سکتے ہیں۔

Ölraffinerie in Baiji Irak Archiv 2009
تصویر: picture-alliance/dpa

دوہا سینٹر کے چارلس لسٹر کے مطابق اس دوران یہ تنظیم اپنے مالی معاملات خود پورا کرنے کے قابل ہو چکی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایس معاشرے میں اپنا ایک جال بچھانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی مثال اس تنظیم کی جانب سے موصل میں بھتہ خوری کے واقعات ہیں، جن کا شکار زیادہ تر چھوٹے تاجر، صنعت کار اور مقامی حکومتی نمائندے ہوتے ہیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ اس تنظیم نے کچھ علاقوں سے ٹیکس بھی وصول کرنا شروع کر دیا ہے، جیسا کہ شمال مشرقی شامی شہر الرّقہ سے۔

گنٹر مائر کے بقول اس کے علاوہ یہ دہشت گرد تنظیم شمالی شام میں تیل کے کنوؤں سے بھی اپنی مالی ضروریات پوری کر رہی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کو یہ سمجھ آ گیا ہے کہ اہم ذرائع پر قبضہ کرنا کتنا ضروری ہے۔’’اس تنظیم کے جنگجو ان کنوؤں کا تیل گاڑیوں میں لاد کر سرحد پار کر کے ترکی میں فروخت کرتے ہیں۔ یہ رقم کمانے کا ان کا ایک اور اہم ذریعہ ہے‘‘۔

ایک اندازے کے مطابق اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ شام کے دس ہزار جنگجو ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ تنظیم کس طرح اس رقم کو خرچ کرتی ہے۔ چارلس لسٹر کے بقول بہرحال واضح ہے کہ یہ تنظیم اپنے غیر ملکی جنگجوؤں کو معاوضہ ضرور دیتی ہے۔