1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئندہ مالی سال کا بجٹ ’ عوام کش ‘، حزب اختلاف

شکور رحیم3 جون 2014

پاکستان میں حکومت نے آئندہ مالی سالی 15-2014 ء کے لیے چودہ سو بائیس ارب روپے خسارے کا قومی بجٹ پیش کر دیا ہے۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتوں نے بجٹ کو عوام کش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CBLu
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منگل کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ حکومت غریبوں کی فلاح و بہبود میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ مزدور کی کم ازکم اجرت دس سے بڑھا کر گیارہ ہزار جبکہ کم از کم پینشن پانچ سے بڑھا کر چھ ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی بحران کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں متعدد منصوبوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔

بجٹ کا مجموعی حجم انتالیس کھرب چھتیس ارب روپے ہے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تین سو چھبیس ارب روپے زائد ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے مخلتف شعبوں میں ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ دس فیصد اضافے کے ساتھ سات سو ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی میزانیے میں یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے لیے محصولات کا ہدف اٹھائیس سو دس ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بجٹ تجاویز میں برآمدات کا ہدف ستائیس ارب جبکہ درآمدات کا ہدف چوالیس اعشاریہ دو ارب ڈالرز رکھا گیا ہے۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کی شرح کا ہدف پانچ اعشاریہ ایک فیصد رکھا گیا ہے۔ صوبوں کو وفاقی محاصل سے سترہ سو تین ارب روپے ملیں گے جبکہ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے پانچ سو پچیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

Pakistanische Kampfjets F-16
آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ دس فیصد اضافے کے ساتھ سات سو ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ انہیں سابقہ حکومت سے تباہ حال معیشت ورثے میں ملی تھی اس کے باوجود گزشتہ چھ سالوں میں پہلی مرتبہ رواں مالی سال میں ترقی کی شرح چار اعشاریہ چار فیصد رہی۔

حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کی تقریر الفاظ کی جادو گری کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ حکومت کو غریب کے بجائے امیروں سے ٹیکس لینا چاہیے اور سرکاری اداروں میں کرپشن کا روکا جائے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اس بجٹ سے درمیانہ طبقہ مار کھائے گا غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے وہ پہلے بھی سوکھی روٹی کھا رہا تھا اب بھی کھائے گا اور اونچے طبقے کے لوگوں کو مسئلہ نہیں ہو گا۔ درمیانہ، تنخواہ دار طبقہ مار کھائے گا۔"

وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ادارہ برائے پائیدار ترقی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ حکومت کی جانب سے براہ راست ٹیکسوں کو بڑھانے کے لیے تجاویز مثبت قدم ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ ان ٹیکسوں کی وصولی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک عام آدمی کے لیے قومی بجٹ میں زیادہ دلچسپی اس لیے نہیں رہی کہ اس کا مسئلہ سال بھر بڑھنے والی بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتیں ہیں جن کا براہ راست اثر اشیائے خورد و نوش اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر عابد سلہری نے کہا کہ "بجٹ میں غریب آدمی اس لیے نہیں مارا کہ جو بجٹ تجاویز ہوتی ہیں اس میں نہ تو بجلی کا بل بڑھے گا نہ گیس کا بل بڑھے گا۔ وہ اوگرا اور نیپرا بڑھاتی ہیں اور یہ وہ چیزیں ہیں جو گورننس کے مسائل ہیں۔ کچھ ریگولیٹری اداروں کے مسائل ہیں اس کو دیکھنا ہے کہ حکومت کس طرح حل کرتی ہے۔"

ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق حکومت کو عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے نفاذ میں سنجیدہ ہے۔