1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئندہ عشرہ خواتین کو کیا دے پائے گا؟

23 دسمبر 2019

رواں صدی کا دوسرا عشرہ اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ یہ دہائی دنیا بھر میں خواتین کے لیے غیر معمولی کیوں رہی؟ کشور مصطفیٰ کا تبصرہ!

https://p.dw.com/p/3VGwY
Mustafa Kishwar Kommentarbild App

پاکستان اور دیگر ممالک میں خواتین نے اس دہائی کے دوران اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کا نہ صرف عزم کیا بلکہ سڑکوں پر نکل کر اور سوشل میڈیا کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے خاموشی توڑ دی اور ایک ایسی جدوجہد کا عملی مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم دنیا کے سامنے ان سماجی اور اخلاقی معیارات پر کھل کر بات ہونا شروع ہوئی، جو صدیوں سے استحصال کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔ تعلیم  سے لے کر عوامی مقامات تک رسائی ، تشدد سے آزاد ہونے اور معاشرے کے دوہرے معیاروں سے آزادی۔ یہ اور کچھ ایسے ہی معاملات ہیں، جنہوں نے آخر کار  ڈرائنگ رومز سے لے کر معاشروں کے مرکزی دھارے میں شامل بحث و مباحثے تک اپنی جگہ بنا لی۔

جنسی ہراسانی کا موضوع

دس سال قبل تک جنسی ہراسانی، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور خواتین کو مختلف تفریحی سرگرمیوں سے محروم رکھنے کی وجوہات جیسے موضوعات پر بات چیت ہونا ناممکنات میں سے تھا۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران خواتین نے نہ صرف روایتی طور پر محض خواتین کی جدوجہد کے طور پر تسلیم شدہ مہم کی رہنمائی کی بلکہ مختلف معاشروں میں پھیلتی ہوئی سماجی انصاف کی تحریکوں میں سب سے آگے رہیں۔ اس کا مقصد اس بارے میں آگاہی کو فروغ دینا تھا کہ کسی ایک صنف، یا گروپ کے لیے مساوات کی جدوجہد ہر ایک کو برابری کے حقوق دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔

صنفی مساوات کا دارومدار 

صنفی مساوات یا برابری معاشرے میں اقتصادی، معاشی ، نسلی ، مذہبی اور ماحولیاتی انصاف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ صنفی عدم مساوات مختلف خواتین کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے اور خواتین غربت، آب و ہوا کی تبدیلی، نسل پرستی اور آج ہمارے سامنے موجود دیگر بہت سارے چیلنجز سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود خوشی کی بات یہ ہے کہ خواتین کو طلبہ یکجہتی مارچ میں سینٹر اسٹیج پر آنے کا موقع ملا، کیمپسز میں خواتین کے حقوق کے مطالبے کو واضح اور بلند آواز سے بیان کیا گیا۔

یہ جدو جہد کتنی مشکل تھی

یہ سب مکالمت اور مہم سازی البتہ مکمل  تعمیری انداز میں نہیں ہوئی۔ خواتین کو بولنے کے نتائج بھگتنا پڑے ہیں کیوں کہ ہمارے پدرسری معاشرے نے ہمیشہ اُن عناصر کو رستے سے  ہٹانے کی کوشش کی ہے، جنہوں نے اس کو للکارنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا تمسخر اڑایا گیا، انہیں بدنام کیا گیا اور بعض اوقات تو ایسی خواتین کو اپنی جدوجہد  کا خمیازہ بھگتنا پڑا، یہاں تک کے ان کی جانیں ضائع  ہوئیں۔

چند مثالیں

پاکستان کی سطح پر دیکھا جائے تو ملالہ ہو یا قندیل بلوچ، ثنا میر یا ہاجرہ خان یا پھر سبین محمود۔ ان سب کا تعلق گرچہ مختلف سمتوں، شعبوں اور وہاں سے اُٹھنے والی مختلف تحریکوں اور احتجاجی سرگرمیوں سے رہا ہے تاہم ان میں قدر مشترک یہ رہی ہے کہ یہ اپنی اپنی سطح پر معاشرے کی بے حسی اور اُس خاموشی کو توڑنے کی سعی کرتی رہیں جو کسی نا کسی شکل میں ان اور ان جیسی خواتین کی زندگیوں کو گھٹن اور قفس میں جاری رکھنے کا سبب رہی ہیں۔

قصہ مختصر رواں صدی#Me too اور # Time's up کی صدی تھی۔ اس صدی نے ملالہ یوسف زئی، گریٹا تھنبرگ، سبین مسعود اور ڈیفنے کارووانا گالیسیا جسی خواتین کی جدو جہد کو اجاگر کر کے آنے والے عشرے میں خواتین کے لیے مثال قائم کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2020 ء دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور ان کے جائز مقام سے متعلق کیا سندیس لے کر آتا ہے؟