1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئندہ برس افغانستان میں زیادہ حملے ہوں گے، نیٹو سربراہ کی تنبیہ

عاطف بلوچ2 دسمبر 2014

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد وہاں جاری تشدد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مقامی سکیورٹی دستے اس خونریزی پر قابو پانے کے لیے تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Dxu6
تصویر: AFP/Getty Images/E. Dunand

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی برسلز سے موصولہ اطلاعات کے مطابق نیٹو کے سربراہ ژینس سٹولٹن برگ نے پیر کی شام افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران اپنا یہ عزم دہرایا کہ نیٹو فوجی مشن کے اختتام کے بعد بھی افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔

نیٹو کی تاریخ کا طویل ترین جنگی مشن رواں برس کے اختتام پر مکمل ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں زیادہ تر غیر ملکی فوجی افغانستان سے واپس بلا لیے جائیں گے جبکہ وہاں سکیورٹی کی ذمہ داری مقامی دستے سنبھال لیں گے۔

نیٹو کے سربراہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد کہا کہ کابل میں حالیہ خونریز حملے اس لیے کیے گئے تاکہ افغان حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں کی کوششوں کی بجائے عالمی میڈیا میں ان حملوں کو سرخیوں کا موضوع بنوایا جائے۔

Deutsche Soldaten in Kabul
نیٹو کی تاریخ کا طویل ترین جنگی مشن رواں برس کے اختتام پر مکمل ہو جائے گاتصویر: picture-alliance/dpa

سٹولٹن برگ نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسند ابھی بھی بڑے دہشت گردانہ حملے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ طالبان کسی نئے علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے قابل ہیں۔

ناروے کے سابق وزیر اعظم سٹولٹن برگ نے مزید کہا، ’’افغانستان میں آئندہ برس بھی پرتشدد حملے ہوں گے لیکن افغان نیشنل سکیورٹی فورسز ان حملوں سے نمٹنے کی اہل ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کی تمام تر ذمہ داری افغان حکومت کو سونپ دی جائے۔‘‘ افغان مشن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سٹولٹن برگ نے کہا، ’’ ہم نے وہ کر لیا ہے، جس کی ہم نے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس وقت ہماری اقوام زیادہ محفوظ ہیں اور افغانستان زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔‘‘

اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے اصرار کیا کہ وہ کئی عشروں سے خونریزی کا شکار اپنے وطن افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ستمبر میں صدارتی منصب پر فائز ہونے والے غنی نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ تمام باغی گروہوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ پیر کے دن اشرف غنی اور افغان چیف ایگزیکٹو آفیسر عبداللہ عبداللہ نے نیٹو کے صدر دفتر کا دورہ بھی کیا۔

ادھر افغانستان میں رونما ہونے والے تشدد کے ایک تازہ واقعے میں نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ پیر کے دن شمالی افغانستان میں رونما ہونے والے اس خود کش حملے میں تدفین کی ایک تقریب کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ اس وقت افغان سکیورٹی دستوں کی مجموعی تعدادساڑھے تین لاکھ ہے لیکن متعدد سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ دستے طالبان باغیوں کے حملوں کو ناکام بنانے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔