1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیل کی قیمتوں میں اٖضافہ 'جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے‘

3 جون 2022

پاکستان کی تاریخ میں پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے سب سے بڑے اضافے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4CGPO
تصویر: Imago stock&people

پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 60 روپے فی لیٹرکا اضافہ کیا گیا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آ گئی ہے۔ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کے علاوہ ریل اور گڈز ٹرانسپورٹس کے کرائے بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔

پشاور، ملتان، لاہور، سکھر، دادو اور فیصل آباد سمیت ملک کے کئی شہروں سے احتجاجی مظاہروں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ حکومت پر اشرافیہ کے لیے مفت پٹرول کی سہولت ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف احتجاجی آوازیں سینٹ کے اجلاس میں بھی سنی گئیں جہاں اپوزیشن ارکان نے اس اضافے پرحکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

ادھر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو معیشت ڈوب جاتی لہٰذا ملک کو بربادی اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے مشکل فیصلے کیے گئے ہیں۔

زیادہ تر پاکستانی حکومتی فیصلے سے مطمئن نہیں

مارکیٹ ریسرچ کے دنیا کے تیسرے بڑے ادارے 'اپسوس‘ کی پاکستانی شاخ نے جمعے کے روز اپنے تازہ ترین سروے کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہر دس میں سے چھ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں حکومت پاکستان کا یہ موقف کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کے لیے ایک  ناگزیر مجبوری بن گیا تھا، درست نہیں ہے۔ جبکہ صرف انیس فی صد عوام کا خیال ہے کہ یہ اقدام آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی وجہ سے ناگزیر تھا۔

اپسوس کے سروے کے مطابق پاکستان کے انسٹھ فیصد عوام کا خیال ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ان کی مشکلات میں شدید اضافے کا باعث بنے گا۔ اپسوس کے سروے میں چونسٹھ فیصد عوام نے کہا کہ ان کے خیال میں موجودہ حکومت کو اپنی مدت پوری نہیں کرنی چاہیے بلکہ مڈ ٹرم انتخابات کروا کر اقتدار نئی حکومت کے حوالے کر دینا چاہیے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ لگتا یوں ہے کہ پٹرول کی قیمتوں کے اضافے کے بعد اب عمران خان کو عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے  کسی دھرنے کی کال دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

’عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا‘

ڈٰی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک ممتاز اقتصادی امور کے ماہر خالد محمود رسول نے بتایا کہ پاکستان میں عام لوگوں کی آمدن میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے انہیں پہلے ہی معاشی مشکلات کا سامنا ہے اب پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد عوام کے لیے سفید پوشی برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ان کے بقول تازہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں افراط زر ساڑھے چودہ فی صد تک جبکہ دیہی علاقوں میں افراط زر انیس فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں مہنگائی کی نئی لہر سے لوگوں کو مزید معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں بچوں کو تعلیم دلوانے، بچیوں کی شادیاں کرانے اور ٹرانسپورٹیشن  کی سہولتوں سے استفادہ کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔

خالد رسول کہتے ہیں کہ یہ صورتحال سماجی بدامنی کا باعث بھی بن سکتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ  اضافے کے بعد پٹرول پمپوں پر لڑائی جھگڑے کے جو مناظر دیکھے گئے اس سے اس بحران کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے سے پاکستانی عوام پریشان

’حکومت بہتر فیصلہ کر سکتی تھی‘

ایک سوال کے جواب میں خالد رسول نے بتایا کہ ایک تو حکومت نے امیر اور غریب سب پر یکساں طور پرمعاشی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ غریبوں کو اس دباؤ سے بچانے کے لیے کوئی موثر پالیسی بناتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم نے حکومت کو اپنا پیٹ کاٹ کر عوام کے ساتھ یک جہتی کرتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ حکومتی وزرا علامتی اعلانات اور زبانی جمع خرچ کے ساتھ اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے حکومت سرکاری خزانے سے میڈیا کا منہ بند رکھنے کے لیے سرکاری وسائل اشتہارات کی صورت میں میڈیا مالکان پر نچھاور کر رہی ہے۔

''آئی ایم ایف نے غریب عوام کو مار دینے کا حکم جاری نہیں کیا تھا بلکہ اس نے حکومت کو اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے، خسارہ دور کرنے اور اپنی بیلنس شیٹ بہتر بنانے کی بات کی تھی۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں حکومتیں  اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے، سرکاری کارپوریشنوں پر اٹھنے والے اخراجات کو کنٹرول کرنے  اور بجلی و گیس کا چوبیس سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ کم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور انہوں نے درست راستہ اختیار کرنے کی بجائے عوام پر معاشی دباؤ ڈالنے کا آسان راستہ اختیار کرنا مناسب سمجھا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں خالد رسول کا کہنا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے صرف عام آدمی ہی متاثر نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے کاروباری لاگت میں بھی کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ اور برآمد کی جانے والی کئی مصنوعات کے لیے عالمی مارکیٹ میں 'کمپیٹ‘ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں خالد رسول نے بتایا کہ اس وقت سیاسی بحران سنگین ہو چکا ہے، قوم تقسیم ہے، ادارے مشکلات کا شکار ہیں۔ ان حالات میں حکومت کے لیے روزمرہ کے معاملات کو لے کر چلنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہو سکے گا اس سلسلے میں بہتر یہی ہوگا کہ مڈ ٹرم انتحابات کروا کر منتخب حکومت کو ملک کے مسائل کے حل کی ذمہ داری دے دی جائے۔

پاکستان: لگژری اشياء کی درآمد بند، عوام ميں بے چينی کی لہر