1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان‌: کیا سیاسی بحران جمہوریت کے لیے خطرہ ہے؟

5 اپریل 2022

ماہرین کی رائے میں پاکستان میں حزب اختلاف کی جانب سے دائرکردہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیے جانے سے پاکستان کی جمہوریت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/49UOB
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

پاکستان میں قومی اسمبلی کا تحلیل کیا جانا، تحریک عدم اعتماد کا مسترد ہونا اور انتخابات کی نئی کال نے پاکستان کے آئین کے حوالے سے نئے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ اس وقت نظریں سپریم کورٹ پر ہیں کہ وہ اس سارے معاملے پر کیسے آئین کی درست تشریح کرے گی۔

جمہوریت پر اثرات

واشنگٹن میں قائم وڈرو ولسن سینٹر میں جنوبی ایشائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات پاکستانی لیڈر کی جانب سے جمہوری عمل کو بائی پاس کرنے کے مترادف ہیں۔'' تحریک عدم اعتماد سے بچ کر عمران خان نے ایک آئینی نظام کو بیرونی سازش، جس کے حوالے سے مناسب شواہد موجود نہیں، قرار دے کر رد کر دیا۔‘‘

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور نائب اسپیکر پر آئینی طور پر واجب ہے کہ وہ کسی کی طرف داری نہ کریں۔

قانونی ماہر اسامہ ملک کا کہنا ہے،''ایک منتخب شدہ حکومت کی جانب سے جمہوریت پر ایسے حملے کی مثال نہیں ملتی۔ اگر نائب اسپیکر کے اقدام کو قانونی ٹہرایا جائے تو آئندہ آنے والی ہر حکومت ایک خیالی سازش کا نام لیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دے گی۔‘‘

بروکنگز انسٹیٹیوشن میں پاکستان اور افغانستان امور کی ماہر مدیحہ افضل کا کہنا ہے کہ حکومت نے ''ایک سیاسی بحران کو غیر آئینی اقدام کے ذریعے آئینی بحران بنا دیا ہے۔‘‘ افضل کے مطابق، '' انہوں نے ملک میں قانون کی عمل داری کو نقصان پہنچایا ہے، یہ جمہوریت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔‘‘

کیا فوج مداخلت کرے گی؟

اب تک اس سارے معاملے پر پاکستان کی فوج نے غیر جانبدار پوزیشن اپنائی ہے لیکن یہ سیاسی بحران ملک میں سکیورٹی صورتحال کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کب تک آرمی چیف جنرل قمر باجوہ خاموش رہیں گے۔ امریکہ کے حوالے سے عمران خان کی پوزیشن سے دور ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے۔ اسلام آباد میں 'انٹرنیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ‘ میں خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے یوکرین پر روسی حملے پر تنقید کرتے ہوئے اسے بہت بڑا سانحہ قرار دیا۔ انہوں نے واشگٹن کے ساتھ بھی اچھے روابط قائم رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے چین اور امریکہ دونوں بہت اہم ممالک ہیں۔

کوگلمین کے مطابق،''فوج نے واضح کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کے فیصلے میں شامل نہیں تھی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آرمی چیف اور وزیر اعظم کے مابین تناؤ تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ  اگر عدالت نے خان کے اقدام کو چیلنج کیا تو کم از کم  فوج خان کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ کوگلمین کا مزید کہنا تھا، '' خان ممکنہ قبل از وقت انتخابات میں فوج کی طرف سے کسی مدد کی امید بھی نہیں کر سکیں گے۔‘‘

کیا عمران خان کامیاب ہو جائیں گے؟

اگرچہ عمران خان کے امریکہ مخالف موقف نے ان کی عوام میں مقبولیت کوبڑھا دیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ خان آسانی سے اگلے انتخابات جیت سکتے ہیں۔ مدیحہ افضل کا کہنا ہے، ''یہ واضح نہیں ہے کہ خان کی پارٹی اگلے انتخابات میں پارلیمنٹ میں کافی نشستیں حاصل کر سکتی ہے، خاص طور پر فوج کی حمایت کے بغیر۔‘‘

تجزیہ کار کوگلمین کا خیال ہے کہ خان نے حالیہ دنوں میں اپنی بنیاد کو دوبارہ متحرک کیا ہے، لیکن انہیں ''معاشی بحران کو کم کرنے کی کوشش میں اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے انتخابی حلقوں  میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

قانونی ماہر ملک تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ مخالف بیان بازی جیسے پاپولسٹ نعرے پاکستانی سیاست میں خوب بکتے ہیں لیکن خان کو اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مسلم لیگ کی طرف سے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عمران خان کے حامی پر امید ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے لیڈر نہ صرف موجودہ آئینی بحران سے بچ جائیں گے بلکہ اگلی پارلیمنٹ میں بھی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

 (ہارون جنجوعہ ) ب ج،ک م

عمران خان کا سیاسی سفر، تحریک عدم اعتماد تک