1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

خیبر پختونخواہ: مشتعل ہجوم نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی

29 نومبر 2021

خیبر پختونخواہ  میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار شخص کو ان کے حوالے نہ کرنے پر پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔

https://p.dw.com/p/43cK9
فائل فوٹوتصویر: DW/T. Shahzad

 پاکستانی صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے پولیس سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر معذور اس شخص کو ان کے حوالے کریں جس پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا ہے۔ مطالبہ پورا نہ پر مشتعل افراد نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔

مقامی پولیس افسر آصف خان کے مطابق اس واقعہ میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔ پولیس کی جانب سے فوری طور پر صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے اضافی نفری طلب کر لی گئی۔ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اسٹیشن میں آگ لگی ہوئی ہے۔ آصف خان کے مطابق مشتعل افراد ان کی تحویل میں موجود شخص کو مارنا پیٹنا چاہتے تھے لیکن پولیس اہلکاروں قانون کے مطابق عمل کیا۔ پولیس کی جانب سے اس شخص کو کسی اور تھانے منتقل کر دیا گیا ہے۔ آصف خان کی جانب سے اس شخص کا نام نہیں بتایا گیا  اور کہا گیا کہ ابھی اس پر عائد الزامات کی انکوائری کی جا رہی ہے۔

ہزاروں افراد کا حملہ

پولیس افسر آصف خان کے مطابق پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے والے مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں تھی: ''پولیس افسران نے پہلے حملے کو روکنے کی کوشش کی لیکن پھر انہیں وہاں سے فرار ہونا پڑا۔  پولیس نے لوگوں کے زخمی اور ہلاک جانے کے خدشے کے باعث طاقت کا استعمال نہیں کیا۔‘‘ آصف خان کے مطابق پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے والے افراد کو تلاش کیا جارہا ہے۔

کیا پاکستان میں توہین مذہب قانون پر نظر ثانی ممکن ہے؟

توہین مذہب کی سزا موت

پاکستان میں توہین مذہب کا جرم ثابت ہونے پر عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم اکثر ایسے الزامات کی صورت میں مشتعل افراد خود ایسے شخص کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی اور مقامی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں اس قانون کا استعمال ذاتی دشمنیوں کا بدلہ لینے یا اکثر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

سن 2017ء میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو فیس بک پر ایک توہین مذہب پوسٹ شیئر کرنے کے الزام میں کچھ ساتھی طلبا کی جانب سے قتل کر دیا گیا تھا۔

سن 2011ء میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر قتل کر دیا تھا۔ آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزم عائد تھا۔ 

ب ج، ا ا (اے پی)