1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں پارسیوں کی نسل معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار

17 اگست 2022

انڈین حکومت ایک ڈیٹینگ ایپ کے ذریعے پارسی مرد اور خواتین کو آپس میں ملانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ان کی شادیوں اور خاندان بڑھانے سے پارسیوں کی آبادی میں اضافہ ہو۔

https://p.dw.com/p/4Fe0C
تصویر: Rafiq Maqbool/AP/picture alliance

سن 1941ء میں بھارت میں ایک لاکھ 14 ہزار کے قریب پارسی آباد تھے۔ پارٹیشین کے بعد کچھ پارسی پاکستان میں بھی آباد ہوئے۔ بھارت میں آج پارسیوں کی تعداد صرف پانچ ہزار رہ گئی ہے۔ پارسیوں کا زرتشتی عقیدہ ہے، جسے عالمی تاریخ کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک مانا جاتا ہے اور اس کی جڑیں قدیم فارس سے ملتی ہیں۔

بھارت کے پارسی کون ہیں؟

بھارتی پارسیوں کا تعلق ساسانی ایران کے فارسیوں سے جوڑا جاتا ہے، جو ساتویں صدی میں عرب مسلمانوں کی فتح فارس کے بعد بھارت ہجرت کر گئے تھے۔ پارسی عام طور پر مغربی بھارتی ریاستوں گجرات اور مہاراشٹر میں آباد ہیں۔ کچھ کمیونٹیز دیگر علاقوں میں بھی بکھری ہوئی ہیں۔

بھارت کے قابل ذکر پارسیوں میں صنعت کار رتن ٹاٹا، ٹاٹا گروپ کے سابق چیئرمین اور ادار پونا والا اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سی ای او شامل ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر شاید سب سے مشہور پارسی، فریڈی مرکری، ہو سکتے ہیں، جو برطانوی بینڈ کوئین کے مرکزی گلوکار تھے۔

کیا پارسی پدرشاہی کے مسئلے سے دوچار ہیں؟

کسی کو عام طور پر تب پارسی تصور کیا جاتا ہے، جب اس کے دونوں والدین پارسی ہوں۔ 'جیو پارسی‘ نامی ڈیٹیٹنگ ایپ پارسی جوڑوں کے بچوں کی دیکھ بھال میں معاونت اور تولیدی علاج جیسے انویٹرو فرٹیلائزیشن یا آئی وی ایف جیسی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔ لیکن یہ سہولیات ایسی پارسی خواتین کے لیے دستیاب نہیں ہیں، جنہوں نے پارسی برادری سے باہر شادی کر رکھی ہو۔

بہت سے پارسی اپنی کمیونٹی کے ان فرسودہ خیالات کو پدرانہ ٹھہراتے ہوئے ان پر تنقید کرتے ہیں۔

ایک پارسی خاتون کرمن بھوٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مرد جس سے چاہیں شادی کر سکتے ہیں اور وہ  پارسی ہی سمجھے جائیں گے۔ لیکن جس لمحے عورت کمیونٹی سے باہر شادی کرتی ہے، تو اسے اپنے سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایسی خاتون اپنا عقیدہ نہ چھوڑے اور اپنے بچے کی پرورش زرتشتی کے طور پر کرنا چاہے، تو وہ ایسا نہیں کر سکتی۔‘‘

رشی کشنانی ایک ہندو باپ اور پارسی ماں کے ہاں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انہیں پارسی نہیں سمجھا جاتا۔ انہوں نے اور ان کی پارسی بیوی نے زرتشتی عقیدے کے مطابق اپنے بیٹے کی پرورش کا فیصلہ کیا۔ کشانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میرے بچے کو پارسی بچوں کے پارک میں جانے سے روک دیا گیا تھا، جہاں اس کے تمام دوست کھیلتے ہیں کیونکہ اس کی ماں نے برادری سے باہر شادی کی تھی۔ لیکن میرا مرد پارسی دوست، جس نے ایک ہندو عورت سے شادی کی، اس کے بچے کو وہاں جانے کی اجازت ہے۔ تو ہماری کمیونٹی میں اس قسم کا تعصب رائج ہے۔‘‘

اٹھارویں صدی میں بننے والا پارسیوں کا ویران آتش کدہ

کشنانی کی اہلیہ نے بین المذاہب شادیوں کے بعد پارسی خواتین اور ان کے بچوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ یہ کیس بھارت کی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

اس شکایت میں سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ 1908 میں منظور کیے گئے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے، جس نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پارسی زرتشتی مردوں کے بچوں کو پارسی تصور کیا جائے گا، جبکہ پارسی زرتشتی خواتین کے بچوں کو بین المذاہب شادیوں میں یکساں حیثیت دینے سے انکار کیا جائے گا۔

 ممبئی میں کئی پارسی کالونیاں ہیں، جنہیں 'باغ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پارسیوں کو سستی رہائش خریدنے اور کرایے پر لینے کی سہولت دستیاب ہے۔ لیکن اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے والی خواتین ان گھروں میں رہنے کا حق بھی کھو دیتی ہیں۔ کمیونٹی کے کچھ حصوں میں، بین المذاہب شادیوں کی وجہ سے پارسی خواتین اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔

تانیکا گود بولے (ب ج/ ا ا)

جمشید میموریل ہال سے خوب صورت یادوں کی دستک

پارسی: صدیوں کے سفر میں فراموش کر دی گئی مذہبی برادری