وزیر اعظم مودی کا دورہء کشمیر کامیاب ہو گا؟
22 اپریل 2022نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مزاحمت کو ختم کرنے اور وہاں اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوششوں میں ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کمشیر کو اپنے اپنے ملک کا حصہ مانتے ہیں۔
سخت سکیورٹی کا انتظام
بھارتی وزیر اعظم کے دورے سے قبل علاقے کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ توقع ہے کہ بی جے پی کی جانب سے پالی نامی گاؤں میں منعقد کی جانے والی تقریب میں ہزاروں افراد شریک ہوں گے۔ یہ گاؤں جموں میں ہے جو کہ اس علاقے کا ہندو اکژیتی جنوبی حصہ ہے۔ اس علاقے میں کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی پر جشن منایا گیا تھا۔
مودی پنچایتی راج جو کہ مقامی جمہوری نظام کو منانے کا دن ہے، کے موقع پر عوام سے خطاب کریں گے۔ کشمیر 2018ء سے عوام کی نمائندہ علاقائی حکومت سے محروم ہے۔ اس وقت بی جے پی نے حکومتی اتحاد چھوڑ دیا تھا اور نئی دہلی نے یہاں گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی
بھارت نے 2019ء میں کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا تھا۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا اور یہاں انٹرنیٹ پر دنیا کی طویل ترین پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کا مقصد حکومت مخالف آوازوں کو سوشل میڈیا پر متحرک ہونے سے روکنا تھا۔
بھارتی کشمیر کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں سب سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ اس پورے خطے میں پانچ لاکھ کے قریب سپاہی اور نیم فوجی تعینات ہیں۔
مقصد دیر پا امن
مودی حکومت کے مطابق کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کا مقصد دیرپا امن قائم کرنا اور یہاں سرمایہ کاری بڑھانا ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ درحقیقت یہاں عام شہریوں کی زندگی اب بہت زیادہ قواعد و ضوابط میں گھر گئی ہے اور عوام کا احتجاج کرنا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔ سن 2019 کی آئینی تبدیلی کے بعد اب بھارتی شہری یہاں زمین بھی خرید سکتے ہیں، نوکریاں حاصل کر سکتے ہیں اور یہاں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
ناقدین جیلوں میں
ایسے 2300 سیاست دان اور سرگرم کارکنان جیلوں میں بند ہیں، جو بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف تھے۔ مقامی اتنظامیہ ایسے سخت قانون کا استعمال کرتی ہے جس کے ذریعے کسی پر بھی دہشت گردی کا الزام عائد کرنا آسان ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھارتی حکومت کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔
مودی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے لیے یہاں پہلے بھی دورہ کر چکے ہیں لیکن کشمیری عوام سے یہ ان کا پہلا براہ راست خطاب ہو گا۔
مودی کا یہ دورہ بظاہر کشمیر میں آباد ان افراد کے لیے ہے، جن کی تائید پہلے ہی نریندر مودی کو حاصل ہے لیکن اس دورے سے ایک مرتبہ پھر یہاں کے دیرینہ تنازعات خبروں کی زینت بن سکتے ہیں۔
ب ج، ع ا (اے ایف پی)