1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر کیسے ہوں گے؟

10 اپریل 2022

پاکستان میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان اپنی جارحانہ حکمت عملی کے باعث اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کے لیے ''مصیبت‘‘ بن سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/49jKP
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اب سابق وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن میں بیٹھنا ہے پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بننے پر خوش آمدید کہیں گے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان بطور قائد حزب اختلاف جمہوری کردار ادا کریں گے۔ ابھی تک پاکستان تحریک انصاف نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان کا قائد حزب اختلاف کون ہو گا۔

پیدائشی قائد حزب اختلاف

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار طاہر ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان اپنے مزاج کے حوالے سے پیدائشی طور پرحزب اختلاف کے لیڈر ہیں۔  ان کے بقول عمران خان پچھلے ساڑھے تین سالوں میں جب وزیراعظم بھی تھے تو وہ وزیر اعظم کم اور اپوزیشن لیڈر زیادہ نظر آئے۔ ''وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے والے یا اتفاق رائے پر یقین رکھنے والے مزاج کے حامل نہیں ہیں۔ وہ ایک سچے فاسٹ باولر کی طرح تیز گیند کرا کر اپنے حریف کو خوفزدہ کرکے داد سمیٹنے والے انسان ہیں۔ یہی رویہ ان کی سیاست میں بھی ہمیں نظر آتا ہے‘‘

طاہر ملک کے مطابق عمران خان وزیر اعظم کے لیے اچھے امیدوار ثابت نہیں ہوئے لیکن اپوزیشن لیڈر کے طور پر ان کی کارکردگی موثر ہونے میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے۔

کوئی دوسرا آپشن نہیں

کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان اگر ڈر کر گھر بیٹھ گئے تو وہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن جائیں گے اس لیے وہ نئی حکومت کی جتنی اپوزیشن کریں گے اتنا ہی عافیت میں رہیں گے۔ طاہر ملک کے بقول ان کے لیے بظاہر ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح کوئی بہانہ کرکے کچھ عرصہ کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں لیکن اس سے ان کو بہت سیاسی نقصان ہوگا۔ نہیں لگتا کہ وہ ایسا کریں گے۔

 ایک ایسے عمران خان جن کے پاس ماضی کی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری ، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ موجود نہیں ہوگی۔ کیا وہ موثر احتجاجی تحریک چلا سکتے ہیں؟ تجزیہ کاروں کے بقول حکومت حاصل کرنے والی متفرق الخیال 'خودغرض‘ سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور ملک کے بڑھتے ہوئے سنگین معاشی مسائل عمران خان کے احتجاجی مستقبل کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔

طاہر ملک کہتے ہیں کہ عمران حکومت میں رہ کر جان چکے ہیں کہ مہنگائی ختم نہیں ہو سکتی، روپے کی قدر کو بہت زیادہ نیچے لے کر آنا بھی آسان نہیں، پٹرول کی قیمتوں کو زیادہ دیر تک بڑھنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس لیے عوام کے معاشی بوجھ میں کافی اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جو ان کو بطور اپوزیشن لیڈر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ '' جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے اگر نواز شریف ''مجھے کیوں نکالا‘‘ والی غصیلی احتجاجی تحریک کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول ہو سکتے ہیں تو پھر مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ کو عمران کی پھرضرورت پڑ سکتی ہے اور یہ دونوں دوبارہ  مل سکتے ہیں۔  پاکستان میں یہ تاثر موجود ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں ایک حلقہ اب بھی عمران کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتا ہے۔

عمران کی عوامی مقبولیت میں اضافہ

ممتاز دفاعی تجزیہ نگار فارووق حمید کہتے ہیں کہ عمران خان کو ''انڈر اسٹی میٹ‘‘ نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد مظلومیت یا عوامی ہمدردی کی  وجہ سے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب وہ ماضی کی چند سیٹوں والے عمران نہیں بلکہ ڈیڑھ سو کے قریب نشستیں رکھنے والے موثر اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔ انہیں میگا جلسے کرنا آتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی سائنس کو سمجھتے ہیں، لوگوں کو ان سے جذباتی وابستگی ہے اور وہ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کنٹینر ٹائپ اپوزیشن

روزنامہ پاکستان سے وابستہ سینئر صحافی چوہدری خادم حسین کہتے ہیں کہ اگر عمران خان سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو ٹائم دیں تو وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو زیادہ ٹائم دینے کی بجائے 'کنٹینر ٹائپ‘ احتجاج پر زیادہ فوکس رکھیں گے۔

عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے، تحریک عدم اعتماد کامیاب

کیا شہباز شریف بڑے سیاسی کردار کے لیے تیار ہیں؟

کیا پی ٹی آئی کے ورکر حکومتی جبر کے آگے ٹھہر سکتے ہیں؟

چوہدری خادم حسین بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس جتنا ووٹ بنک ہے اتنی سٹریٹ پاور نہیں ہے۔ کل کا احتجاجی مظاہرہ لالک چوک ڈی ایچ اے میں ہوا تھا۔ آج کا گلبرگ کے پوش ایریا میں ہونے جا رہا ہے۔  باقی شہر ابھی تک خاموش ہے۔ جو لوگ پاکستان مسلم لیگ نون کی 'پولیس گردی‘ والے ہتھکنڈوں سے واقف ہیں۔ وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کے ورکرز کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ '' اگر پی ٹی آئی حکومت تشدد کے باوجود بھی ثابت قدم رہی ( اس کے امکانات پچاس فی صد سے بھی کم ہیں) تو پھر اگلے انتخابات میں اسے دو تہائی اکثریت لینے سے نہیں روکا جا سکے گا۔‘‘

اپوزیشن والے عمران خان کیوں خطرناک ہیں؟

کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان پر آصف زرداری اور شریف فیملی کی طرح کے کرپشن کے الزامات نہیں ہیں۔ اور وہ کسی قسم کی غیر معمولی کاروباری سرگرمی میں بھی ملوث نہیں۔ اس لیے انہیں دیگر لیڈروں کی طرح بلیک میل کرنا آ سان نہیں ہے۔  اسی طرح ان کے پاس کئی ایسے راز موجود ہیں جن کا تذکرہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو شرمندگی سے دوچار کر سکتا ہے۔

کیا نئی حکومت کے خلاف کوئی اپوزیشن  اتحاد وجود میں آ سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جون کے بعد اس ضمن میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔ ایک تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ حکومت کس حد تک عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ دوسری طرف اقتدار کی بندر بانٹ سے غیر مطمئن لوگ بھی سامنے آ جائیں گے۔ چوہدری خادم حسین کے بقول پیپلز پارٹی کراچی یا حیدآباد کی حد تک تو ایم کیو ایم کو برداشت کر سکے گی لیکن سکھر اور نواب شاہ کی طرف ایم کیو ایم کی پیش رفت برداشت نہیں کر سکے گی۔

کیا عمران عوامی مقبولیت کے زور پر جمہوری بالادستی قائم کر سکتا ہے؟

بدقسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ چوہدری خادم حسین کہتے ہیں کہ 1971 سے پہلے تک اس بات کی امید تھی لیکن اب ایسا ممکن ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔ اگر بھٹو جیسا شخص بے پناہ عوامی مقبولیت کے ساتھ ایسا نہیں کرسکا تو اب تو مشکلات اور بھی زیادہ ہیں۔ ''دیکھئے یہ حکومت جیسے بنی ہے آئندہ حکومتیں بھی ایسے ہی بنیں گی۔ اور جب تک ہمارے ملک کو انڈیا، ایران اور افغانستان کی طرف سے سنگین خطرات لاحق ہیں ہم اپنی اسٹیبلشمنٹ کی کوتاہیاں معاف کرتے رہیں گے۔ میرے نزدیک موجودہ حالات میں  یہی ایک بہتر اور قابل قبول راستہ ہے۔ ‘‘

 

پاکستان: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کا جشن