1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغانستان میں خواتین اینکرز چہرہ ڈھانپنے پر مجبور

22 مئی 2022

افغانستان میں خواتین اینکرز نے ہفتے کے روز برقعہ پہننے سے متعلق طالبان کے حکم نامے کی خلاف ورزی تو کی لیکن آج اتوار کے دن انہیں مجبوراﹰ اپنے چہرے ڈھانپ کر پروگرام پیش کرنا پڑے۔

https://p.dw.com/p/4BhRm
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

گزشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے سول سوسائٹی خاص طور پر خواتین کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس ماہ کے آغاز میں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ایک حکم نامے میں کہا تھا کہ افغانستان میں تمام عوامی مقامات پر خواتین کو مکمل برقعہ پہننا ہوگا۔

طالبان کی نیکی کی ترویج اور برائی کی روک تھام کی وزارت نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں ہفتے کے دن سے تمام ٹی وی چینلز میں کام کرنی والی خواتین کو چہرے کا پردہ کرنے یا نقاب پہننے کے لیے کہا گیا تھا۔ لیکن افغان خواتین پریزینٹرز نے گزشتہ روز اس حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹی وی نشریات کے دوران اپنے چہرے نہیں ڈھانپے تھے۔ آج لیکن انہیں ان کے ٹی وی چینلز کی جانب سے کہا گیا کہ انہیں اپنے چہرے ڈھانپنا ہوں گے۔ تولو نیوز میں بطور اینکر کام کرنے والی سونیا نیازی کا کہنا ہے، ''ہم مزاحمت کر رہی تھیں کہ ہم ماسک سے چہرہ نہیں چھپائیں گی لیکن تولو نیوز چینل دباؤ میں تھا ۔ اس ٹی وی چینل کو کہا گیا تھا کہ اگر کوئی خاتون اپنے چہرہ ڈھانپے بغیر ٹی وی پر نظر آئی تو یا تو اسے کوئی اور کام دے دیا جائے یا اسے نوکری سے ہی نکال دیا جائے۔‘‘ سونیا کے مطابق ان کے پاس چہرہ ڈھانپنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

نیکی کی ترویج اور برائی کی روک تھام کی افغان وزارت کے ترجمان محمد عاکف صادق مہاجر نے کہا کہ حکام کا خواتین اینکرز کو ان کی ملازمتوں سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ''ہمارا ان کو عوامی منظر نامے سے ہٹانے یا ان کے کام کرنے کے حق کو ان سے چھین لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ مہاجر نے کہا، ''ہم میڈیا چینلز سے خوش ہیں کہ انہوں نے اس ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھایا۔‘‘

افغان خواتین کے لیے برقعہ اور نقاب، دونوں لازمی

طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر خواتین سرکاری ملازمین کے طور پر نئے ڈریس کوڈ پر عمل کرنے میں ناکام رہیں، تو انہیں ملازمتوں سے نکال دیا جائے۔ حکومتی محکموں میں کام کرنے والے مردوں کی بیویاں یا بیٹیاں اگر اس حکم نامے کا احترام نہیں کرتیں، تو انہیں بھی معطلی کا خطرہ ہے۔ عاکف کے مطابق  اگر اس حکم پر عمل نہ کیا گیا، تو میڈیا مینیجرز اور منحرف خواتین اینکرز کے سرپرست مردوں کو بھی جرمانے کیے جائیں گے۔

طالبان کی گزشتہ حکومت کے ختم ہونے کے بعد کے 20 سالوں میں قدامت پسند دیہی علاقوں میں بہت سی افغان خواتین نے برقعہ پہننا جاری رکھا۔ تاہم زیادہ تر افغان خواتین، بشمول ٹی وی پریزینٹرز، نے اسلامی ہیڈ اسکارف کا انتخاب کیا۔ طالبان کے حکم کے بعد ٹیلی وژن چینلز نے پہلے ہی ایسے ڈراموں اور سیریلز وغیرہ کو نشر کرنا بند کر دیا ہے، جن میں خواتین کو دکھایا گیا ہو۔

ب ج / م م (اے ایف پی)

افغان لڑکیوں کی ٹیم: ’فٹ بال کھیلنا آزادی کےمانند ہے‘