1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کروڑوں سال پرانی پتھر نما ’چیز‘ کا راز معلوم ہو گیا

5 جولائی 2020

ٹیکساس یونیورسٹی کے سائسندانوں نے 66 ملین سال پرانے فوصل کا راز بالآخر معلوم کر لیا ہے۔ یہ فوصل 2011ء میں دریافت ہوا تھا اور تب سے سائنسدان اس کی حقیقت جاننے کی کوششوں میں لگے تھے۔

https://p.dw.com/p/3epMd
Universität Chile | Fossil aus der Antarktis
تصویر: Reuters/University of Chile

اس 'چیز‘ کی حقیقت ہے کیا؟

چِلی کے ماہرین نے یہ فوصل یا پتھر نما چیز کو 2011ء میں دریافت کیا تھا تاہم اس کی شناخت میں ناکامی کے بعد انہوں نے اسے ملکی عجائب گھر میں رکھ دیا تھا۔ جرمن میگزین 'فوکس‘ کے مطابق شناخت میں ناکامی کے سبب اسے محض ایک چیز یا 'دی تھنگ‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا حجم ایک فٹبال کے برابر ہے۔

تاہم 2018ء میں ماہر رکازیات یا پلینٹالوجسٹ جولیا کلارک نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ چیز دراصل ایک بہت بڑے رینگنے والے جانور کا انڈا ہے۔ یہ مفروضہ اس وقت اس چیز کے حجم اور اس میں ڈھانچے کی غیر موجودگی کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا تھا۔

تاہم سائنسدانوں کی طرف سے رواں برس اس چیز کے کیمیائی تجزیوں نے جولیا کلارک کے اُس مفروضے کی تصدیق کر دی جس میں انہوں نے اسے ایک انڈا قرار دیا تھا۔ کلارک نے مفروضہ اپنے ریسرچ پیپر میں پیش کیا تھا جس کی وہ شریک مصنف تھیں اور یہ معروف سائنسی تحقیقی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ہوا تھا۔

یہ انڈا ہے کس جاندار کا؟

جرمن اخبار 'ڈوئچے سائٹنگ‘ کے مطابق یہ فوصل 28 سینٹی میٹر لمبا اور 18  سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ یہ سب سے بڑا سافٹ شیل انڈا ہے، اور اب تک دریافت ہونے والا دوسرا سب سے بڑا انڈا ہے۔ یہ سانپ کے انڈے کی شکل کا ہے اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ جس جاندار کا انڈا ہوسکتا ہے اس کی کم سے کم لمبائی بھی سات میٹر رہی ہو گی۔

Universität Chile | Fossil aus der Antarktis
یہ فوصل 28 سینٹی میٹر لمبا اور 18  سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ یہ سب سے بڑا سافٹ شیل انڈا ہے، اور اب تک دریافت ہونے والا دوسرا سب سے بڑا انڈا ہے۔ تصویر: Reuters/University of Chile

سائسندان ابھی تک اس جاندار کی شناخت کی کوشش میں ہیں۔ تاہم ان کا اندازہ ہے کہ یہ 'موزاسوریت‘ خاندان کے رینگنے والے سمندری جانوروں کے خاندان سے ہو سکتا ہے، جو کئی ملین سال قبل زمین پر وجود رکھتے تھے۔

سائسندانوں کو اسی مقام سے اس جاندار کے ڈھانچے بھی مل چکے ہیں جہاں سے انہیں یہ انڈا ملا تھا۔ تاہم اب تک کی معلومات کے مطابق یہ قسم انڈوں کی بجائے بچے دیا کرتی تھی۔ بعض سائسندانوں کا خیال ہے کہ یہ کسی ایسے جل تھلی یا ایمفیبیئن جاندار کا بھی ہو سکتا ہے جو بہت پہلے ناپید ہو گئے ہوں۔ ایمفیبیئن جاندار پانی اور خشکی دونوں میں رہ سکتے ہیں۔

تازہ تحقیق کے مصنف لوکس لیجنڈرے کے بقول، ''نرم شیل کے حامل کسی انڈے کا اس حد تک محفوظ شکل میں ملنا انتہائی نادر واقعہ ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس دریافت سے زندگی اور قدیم دور میں مختلف جانداروں کے بارے میں تحقیق کو ایک نئی سمت ملے گی۔

ڈائناسور ٹی ریکس کا ڈھانچہ

ا ب ا / ع آ (خبر رساں ادارے)