60 سے زائد ممالک میں خفیہ جیلیں
13 جون 2010حال ہی میں ہیومن رائٹس کونسل نے خفیہ جیلوں کے اندر قیدیوں کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق سامنے آنے والی تازہ ترین رپورٹ پر غور و خوض کیا۔ انسانی حقوق کے امور کے 4 ماہرین نے مل کر 200 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں دنیا کے متعدد ممالک کی خفیہ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے خوفناک حقائق سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان خفیہ حراستی کیمپوں کا نہ تو انسانی حقوق کے احترام اور نہ ہی اس سے متعلق جنیوا کنونشن سے دور دور کا کوئی واسطہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 60 سے زیادہ ممالک میں قیدیوں کو خفیہ مقامات پر رکھنا، ان پر عائد جرائم کے سلسلے میں غیر انسانی تفتیشی کارروائیاں اور اذیت رسانی آئے دن کا معمول ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری میں شامل 4 ماہرین میں سے ایک Manfred Nowak کہتے ہیں۔ : ’’یہ سلسلہ نائن الیون کے بعد بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ سی آئی اے کی خفیہ جیلیں متعدد ممالک میں قائم ہیں اور ان خفیہ حراستی کیمپوں میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے۔ افغانستان ہو یا پاکستان یا تھائی لینڈ ۔ یہاں تک کہ یورپی ممالک مثلاً پولینڈ، رومانیہ اور لتھوینیا میں بھی یہی صورتحال ہے۔‘‘
پاکستان میں اب تک اس رپورٹ کی اشاعت کو ممکنہ طور پر روکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح روس کی بھی یہی کوشش رہی کہ ہیومن رائٹس کونسل کی انٹرنٹ ویب سائٹ پر موجود اس رپورٹ کو کسی طرح ہٹا دیا جائے۔ ماسکو ویسے ہی روس میں خفیہ جیلوں کے وجود کو متنازعہ سمجھتا ہے۔ ایسے تمام ممالک اپنے ہاں اس قسم کی جیلوں کی موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کی طرف انگلی اٹھائی جائے۔ رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ کسی ایک ملک نے بھی اس امر کا اقرار نہیں کیا ہے کہ اس کے ہاں خفیہ جیلیں موجود ہیں۔ تاہم خصوصی رپورٹرز نے اس بارے میں نہایت گہرائی میں جاکر ریسرچ کی ہے اور متعدد گواہوں کے ساتھ خود بات بھی کی ہے۔
ہیومن رائٹس کونسل میں تازہ تازہ رکن بننے والے امریکہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ اِس رپورٹ کو جنیوا ہی میں زیرِ بحث لایا جائے۔ یہ امر حیران کن ہے کیوں کہ رپورٹ کے چاروں مصنفین نے امریکہ پر بہت سخت تنقید کی ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق سی آئی اے کے زیر انتظام دنیا بھر میں خفیہ جیلیں کام کر رہی ہیں۔ ماہرین اس سلسلے کو حکومت دشمن عناصر کے تعاقب کے لئے فعال ایک گلوبل نیٹ ورک سے تعبیر کر رہے ہیں۔
اس کے لئے ایک خاص اصطلاح Detention by Proxi استعمال کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے امور کے ماہر مانفرڈ نوواک اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں : ’’امریکہ دراصل اپنے ہاں سے لوگوں کو دوسرے ممالک میں بھیجتا ہے تاکہ وہاں اُن سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ خاص طور سے مصر، شام، مراکش اور پاکستان جیسے ممالک میں، جو قیدیوں پر جبر و تشدد کے حوالے سے بدنام سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
اس بارے میں خصوصی رپورٹنگ کرنے والوں نےاس امر پر سخت تنقید کی ہے کہ دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیاں ایک قانونی خلا میں بغیر قوانین و ضوابط کے کام کر رہی ہیں اور یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انسانی حقوق کے قوانین کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ خفیہ جیلوں کے قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین نے تمام ریاستوں سے اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوں پر کڑی نظر رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خفیہ جیلیں بند کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کریں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی