1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

49 دنوں بعد نوجوان کو سمندر سے بچا لیا گیا

24 ستمبر 2018

آلڈی نوویل ایڈیلانگ مچھلیاں پکڑنے کی اپنی چھوٹی سی کشتی پر روشنی کرنے والے کے طور پر تنہا ہی کام کرتے تھے جب ان کی یہ کشتی تیز ہواؤں کے سبب لنگر سے الگ ہو گئی تھی۔ انہیں جزیرہ گوام کے قریب سے ایک بحری جہاز نے بچایا۔

https://p.dw.com/p/35Q3K
Indonesien Teenager Indonesien Aldi Novel Adilang gerettet
تصویر: picture-alliance/dpa/Indonesian Consulate General In Osaka

انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک ٹین ایجر کو بحرالکاہل سے 49 روز بعد زندہ بچا لیا گیا۔ انڈونیشیا کے مقامی میڈیا کے مطابق 19 سالہ آلڈی نوویل ایڈیلانگ کی کشتی لنگر سے الگ ہونے کے بعد سمندری لہروں کے سبب ہزاروں کلومیٹر دور نکل گئی تھی۔ اس دوران اس نوجوان نے سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائی جبکہ اپنے کپڑوں کو بارش میں بگھو کر اس سے حاصل شدہ پانی کو پینے کے لیے استعمال کیا۔

جکارتہ پوسٹ کے مطابق آلڈی ’’دنیا کا سب سے زیادہ تنہائی کا حامل‘‘ کام کرتا تھا۔ اس کا  کام مچھلیاں پکڑنے کے لیے بنائی گئی لکڑی کی ایک خصوصی کشتی پر رات کے اندھیرے میں روشنی کرنا تھا۔ اس کشتی کو رومپونگ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کشتی کو لکڑی کے گولوں کو جوڑ کر بنایا جاتا ہے اور اس کے اوپر ایک چھوٹا سا لکڑی ہی سے بنا رہائشی کمرہ بھی موجود ہوتا ہے۔ آلڈی کا کام اس کشتی پر رات کی تاریکی میں لیمپ جلانا تھا تاکہ مچھلیاں روشنی دیکھ کر وہاں جمع ہوں۔ اُسے مسلسل چھ ماہ تک اس کشتی پر رہنا پڑتا تھا۔

انڈونیشیا کے شمالی سولاویسی علاقے سے سمندر میں 125 کلومیٹر کے فاصلے پر اس کی کشتی موجود رہتی تھی جبکہ اس دوران اس کا دنیا کے ساتھ واحد رابطہ مچھلیاں لے جانے اور اسے خوراک پہنچانے والی کشتیاں ہوتی تھیں یا پھر واکی ٹاکی۔

14 جولائی کو تیز سمندری ہواؤں کے سبب اس کی کشتی اینکر سے الگ ہو گئی۔ بغیر انجن اور بغیر پیڈل کے یہ کشتی تیز ہواؤں کے سبب وہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور بحرالکاہل میں موجود امریکی جزیرے گوام کے قریب تک پہنچ گئی۔

جکارتہ پوسٹ کے مطابق آلڈی کے پاس جب خوراک کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو اس نے سمندر سے پکڑی ہوئی مچھلیوں کو کشتی کے چھوٹے چھوٹے حصوں سے جلائی گئی آگ پر پکا کر کھانا شروع کر دیا۔

10 بحری جہاز قریب سے گزرے

جاپانی شہر اوساکا میں تعینات انڈونیشیا کے ایک سفارت کار فجر فردوس کے مطابق، ’’جب بھی آلڈی کسی بحری جہاز کو قریب سے گزرتا دیکھتا تو  وہ اسے متوجہ کرنے کی پوری کوشش کرتا مگر اس دوران 10 بحری جہاز اسے دیکھے یا اس کی مدد کیے بغیر ہی وہاں سے گزر گئے۔‘‘

تاہم آلڈی 31  اگست کو  پاناما کے پرچم والے ایک بحری جہاز کو اپنی شرٹ ہوا میں لہرا لہرا کر  اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جہاز کے عملے کی طرف سے شدید کوشش کے بعد ایک رسے کے ذریعے بالآخر آلڈی کو اس کی کشتی  سے اس بحری جہاز پر منتقل کر دیا گیا۔ اس بحری جہاز نے بعد ازاں جاپان پہنچ کر اس لڑکے کو انڈونیشیا کے حکام کے حوالے کیا۔ وہ نو ستمبر کو بالآخر واپس انڈونیشیا کے موناڈو نامی شہر میں واقع  اپنے گھر اور اہل خانہ کے پاس پہنچا۔

ا ب ا / م م (الیزبیتھ شوماخر)