40 پاکستانی بچے افغان عسکریت پسندوں کے قبضے میں
3 ستمبر 2011حکام کا کہنا ہے کہ ان بچوں کا تعلق قبائلی علاقے باجوڑ کے شہر مامون سے تھا اور وہ عید الفطر کے موقع پر سیر و تفریح کرتے کرتے انجانے میں سرحد پار کر گئے تھے۔ پاکستانی حکومت کے ایک عہدیدار محمد حسیب خان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا: ’’اب سرحد پار عسکریت پسندوں نے اِن کو پکڑ رکھا ہے۔‘‘ اس پاکستانی دعوے کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ کابل میں ایک ترجمان نے بتایا کہ افغان وزارتِ داخلہ کے خیال میں یہ دعویٰ محض ایک ’افواہ‘ ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق اُنہیں اغوا کے اس واقعے کا پتہ اِن بچوں کے والدین سے چلا، جو سرحدی علاقے کے ایک قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے بچوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
حسیب خان نے مزید بتایا کہ اِس گروپ میں شامل دَس سال سے کم عمر کے لڑکوں کو تو واپس پاکستان آنے کی اجازت دے دی گئی لیکن بارہ تا چودہ سال کے لڑکوں کو بدستور پکڑ کر رکھا گیا ہے۔ پکنک منانے والے اِس گروپ میں تقریباً ساٹھ پاکستانی بچے شامل تھے۔
پاکستانی حکام کے مطابق قبائلی عمائدین اور علماء ان بچوں کو رہا کروانے کے لیے عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
پاکستانی قبائلی علاقہ باجوڑ افغان صوبے کنڑ کے بالمقابل واقع ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی رُوٹ استعمال کرتے ہوئے عسکریت پسند امریکی قیادت میں سرگرم عمل افواج کے ساتھ لڑنے کے لیے افغانستان میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔
مامون کے قبائلی القاعدہ اور طالبان کی مخالفت کرتے ہیں اور اِن عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی کے لیے اُنہوں نے ملیشیا دستے بھی منظم کیے ہیں، جس کی وجہ سے عسکریت پسند اِن قبائلیوں سے ناراض بھی ہیں اور اُنہوں نے اِن قبائلیوں کو اکثر بم حملوں اور فائرنگ کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ بچے اُس عسکریت پسند گروپ کے قبضے میں ہیں، جس کی وابستگی باجوڑ میں عسکریت پسندوں کی قیادت کرنے والے لیکن اب غالباً افغانستان میں رُوپوش طالبان کمانڈر مولوی فقیر محمد سے ہے۔ پاکستانی فوج فقیر محمد کو نیم فوجی دستوں کی ایک پاکستانی چوکی پر گزشتہ ہفتے کے اُس حملے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے، جس میں 25 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل