1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2014ء چیلنجز کا سال ہے، پاکستان میں جرمن سفیر سرل نن

شکور رحیم 17 جنوری 2014

افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے پرامن انخلاء اور اس کے بعد خطے میں استحکام قائم رکھنے کے لیے مخلتف سطحوں پر کوششیں جاری ہیں۔ مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی افغانستان اور خطے کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Asho
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن ادارے "فریڈرش ایبرٹ اشٹفٹنگ" نے افغان مسئلے کے پائیدار حل کے لیے خطے کے مختلف ممالک کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا سلسہ شروع کر رکھا ہے۔ تین سال قبل شروع کیے گئے اس عمل میں افغانستان، پاکستان، بھارت، وسطی ایشائی ریاستوں، ایران، چین اور روس جیسے ممالک سے سیکیورٹی و خارجہ امور کے علاوہ ریٹائرڈ فوجی افسران اور سفارتکاروں کو شامل کیا گیا۔

ایف ای ایس کے تحت ان ماہرین نے گزشتہ سال نومبر میں کابل میں افغانستان کی سیکورٹی سے متعلق ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا۔

اس مشترکہ اعلامیے کو اب اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں بھی جاری کیا گیا ہے۔ اس تقریب میں شریک اسلام آباد میں جرمن سفیر ڈاکٹر سرل نن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ 2014 ءچیلنجز کا سال ہے کیونکہ اس سال بین الاقوامی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو گا۔ ہمیں ان ممالک کے عزم کا بھی علم ہے، جو ایک پرامن خطے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس میں جرمنی بھی شامل ہے اور وہ 2014ء کے بعد بھی افغانستان کی عملی مدد جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ تعمیر نو اور اقتصادی تعاون کے ساتھ ساتھ افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے سلسلے میں بھی مدد فراہم کی جائے گی‘‘۔

Logo Friedrich-Ebert-Stiftung

ڈاکٹر سرل نن نے مزید کہا کہ ’’ 2014 ء کے اختتام پر یہ خطرہ نہیں ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے دوست یہاں سے جانے کے بعد یہ کہیں گے کہ ہمیں اس خطے کی پرواہ نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے ایسا نہیں ہوگا‘‘۔

جرمن سفیر کا مزید کہنا تھا اس خطے میں قیام امن کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ’’دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو خطرے کے طور پر نہیں بلکہ پرامن پڑوسیوں کے طور پر دیکھیں‘‘۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں جرمن سفیر کا کہنا تھا ’’ اتحادی افواج افغان حکومت کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف کئی سال سے لڑ رہی ہیں اور اس کے نتائج ملے جلے ہیں کچھ مثبت نتائج حاصل کیے گیے ہیں لیکن طالبان کو شکست نہیں دی جا سکی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کے طالبان کو ایک سیاسی قوت کے طور پر لایا جائے، جو صرف تنہا نہیں بلکہ بہت سی سیاسی قوتوں میں سے ایک ہو۔ درحقیقت یہ ایک چیلنج ہے، جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں اور یہ عمل کس طرح ہونا چاہیے اس کا جواب خود افغانوں کودینا ہو گا‘‘۔

تاہم قبائلی اور افغان امور کے ماہر بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ کا کہنا ہے کہ امریکی انخلاء سے قبل طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات میں ناکامی مسائل کا سبب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ افغانستان سے اب امریکی انخلاء ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی موجودگی کے دوران طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات نہیں کرائے اور ان کو مرکزی دھارے میں نہیں لائے۔ میرے خیال میں اس وجہ سے یہ مسئلہ یونہی رہے گا‘‘۔

افغان مسئلے پر ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں شریک ایک ریٹائرڈ بھارتی جنرل اشوک مہتا نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ بھارت اور پاکستان کی افغانستان میں مداخلت اور باہمی مخاصمت بھی افغان مسئلے کے پرامن حل میں ایک رکاوٹ ہے۔ اشوک مہتا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’یہ سمھجنا یا کہنا کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو افغانستان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا، غلط بات ہے۔ جتنی اہمیت انڈیا پاکستان کے مسئلے کو افغانستان کے اندر دی جارہی ہے اتنا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہے‘‘۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلاء کا وقت تیزی سے قریب آرہا ہے اور ایسے میں افغانستان میں قیام امن کے خواہشمند ممالک کو اپنی کوششوں کو مربوط اور ٹھوس شکل دینے کی اشد ضرورت ہے۔