1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

200 سے زائد سابق افغان اہلکاروں کا ماورائے عدالت قتل

22 اگست 2023

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک سابق افغان حکومتی اور سکیورٹی فورسز کے دو سو سے زائد اہلکاروں کا ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/4VSBQ
Afghanistan Kabul | Explosion nahe Innenministerium: Taliban auf Militärfahrzeug
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP/picture alliance

 منگل بائیس اگست کو اقوام متحدہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دو سال قبل افغانستان میں طالبان کے کابل پر قبضے اور دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک 200 سے زائد سابق حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کا ماورائے عدالت قتل ہوا۔ افغانستان میں یو این اسیسٹنس فورسز نے طالبان جنگجوؤں کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے گروپوں کے ضمن میں بتایا کہ ان کا تعلق سابق فوج اور پولیس سے تھا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 2021ء سے لے کر رواں سال یعنی 2023 ء کے جون کے ماہ کے اواخر تک سابق افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکاروں کے ساتھ 800 سے زائد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویز کیا گیا ہے۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے حتمی انخلاء کے  ساتھ ہی طالبان نے پورے افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکہ کی تربیت یافتہ اور حمایت یافتہ افغان افواج تباہ ہو گئیں اور طالبان کی پیش قدمی جس شدت سے ہوئی اُس کے نتیجے میں سابق افغان صدر اشرف غنی جان بچا کر ملک سے فرار ہو گئے۔

افغانستان میں شہریوں کی حفاظت میں مدد کرتی موبائل ایپ

اقوام متحدہ کی اس تازہ ترین رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ،''افغانستان میں افراد کو ڈی فیکٹو طالبان  سکیورٹی فورسز قتل کرنے سے پہلے حراست میں لیا کرتے تھے، اکثر مختصر عرصے کے لیے اور اُس کے بعد انہیں حراست کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ بعض کیسز میں ان افراد کو کسی نا معلوم مقام پر لے جاتے اور وہاں ان کو قتل کر کے یا تو ان کی لاش ان کی فیملی کے حوالے کر دیتے یا لاش کو کسی مقام پر دفن کر دیتے تھے۔

کابل میں افغان خواتین کا احتجاج
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور قتل کے خلاف افغان خواتین کا احتجاجتصویر: privat

 اقوام متحدہ کی اس مذکورہ رپورٹ کی اشاعت کیساتھ ساتھ یو این ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں انہوں نے سابق افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز سے منسلک افراد کے ساتھطالبان کے اس بہیمانہ سلوک کی سنجیدہ  تصویر کشی کی ہے۔ فولکر ترک کے بقول، ''اس سے بھی بڑھ کر ظلم یہ تھا کہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گیا، یہ لوگوں کے اعتماد کے ساتھ خیانت ہے۔‘‘

 ترک نے افغانستان کے موجودہ طالبان حکمرانوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کوپورا کریں، انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کو روکنے اور مجرموں کو پکڑ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیں۔‘‘

افغانستان کا ایک ہزار سال پرانا شہر

کابل پر دوبارۃہ قبضے اور اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کو کوئی خاطر خواہ مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ دریں اثناءطالبان کی زیر قیادت افغان وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ طالبان اہلکار یا ملازمین کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کسی بھی معاملے سے لاعلم تھے۔ ایک بیان میں کہا گیا،''امارت اسلامیہ کے اداروں کے ملازمین اور سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے سابق حکومت کے ملازمین اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف مقدمے کے بغیر یا ماورائے عدالت قتل، حراست، تشدد اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں رپورٹ نہیں کی گئیں۔‘‘

 ایک خاتون کو قتل کرنے کی تیاری
افغانستان میں ظلم و بربریت کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہو رہی ہیں تصویر: picture-alliance/dpa

یو این اے ایم اے نے سابق حکومتی اہلکار اور افغان  سکیورٹی فورس کے ارکان کی جبری گمشدگی کے کم از کم 14 واقعات کو دستاویز کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو اکتوبر 2021 ء کو مغربی صوبہ ہرات کی خواتین کی جیل کی سربراہ عالیہ عزیزی کام سے گھر واپس نہیں آئیں۔ ان کا محل وقوع  اب تک نامعلوم ہے۔ مبینہ طور پر تحقیقات شروع کیے جانے کے باوجود ان کی گمشدگی کی تحقیقات طالبان نے جاری نہیں کیں اور نہ ہی ان کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی بھی معلومات موجود ہے۔

اقوام متحدہ نے سابق حکومتی اہلکاروں اور افغان سکیورٹی فورسز کے ارکان کی 424 سے زیادہ صوابدیدی گرفتاریوں اور حراستوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔  جبکہ تشدد اور ناروا سلوک کے 144 سے زائد واقعات پیش آنے کو ریکارڈ کیا گیا ہے، جن میں پائپ یا کیبلز سے مارنے پیٹنے، زبانی دھمکیوں اور حراساں کرنے کے واقعات کے علاوہ  دیگر بدسلوکی کے واقعات بھی شامل ہیں۔

طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ابتدائی طور پر سابق حکومت اور بین الاقوامی افواج سے منسلک افراد کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا تھا، تاہم ان وعدوں کو برقرار نہیں رکھا گیا۔

ک م/ ا ا(اے پی)