1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

1973ء کے آئین کی گولڈن جوبلی اور پاکستانی ریاست کا ارتقاء

10 اپریل 2023

پاکستانی آئین کو ملکی تاریخ میں آئے آمریت کے سیاہ موسموں میں امید کی لو روشن رکھنے والا قطبی ستارہ سمجھا جاتا ہے۔ تہتر کا آئین ملکی تاریخ میں عوام کی ایک عظیم کامیابی اور ملکی سلامتی کی ضمانت بھی قرار دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4PrlP
Parlamentsgbäude in Islamabad Pakistan
تصویر: AP

گذشتہ برس دس اپریل کو عمران خان کی وزارت عظمٰی کے منصب سے رخصتی ہو یا دو صوبوں میں انتخابات کا حالیہ معاملہ، جب بھی سیاسی کشمکش، بنیادی حقوق یا اداروں کے درمیان اختیارات کا شور اٹھا تان بالعموم اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ ملکی  آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ ہمارے آئین کو ملکی تاریخ میں وہ قطبی ستارہ تصور کیا جاتا ہے، جس نے آمریت کے سیاہ موسم میں امید کی لو روشن رکھی اور جمہوری ادوار میں مل کر آگے بڑھنے کا راستہ سجھایا۔ 

pakistanischer Präsident Mohammed Ayub Khan
ایوب خان اپنے صدراتی آئین میں بے انتہا اختیارات کے مالک تھےتصویر: imago stock&people

 معروف دانشور وجاہت مسعود کے الفاظ میں "1973 کا دستور ملک کی 75 سالہ تاریخ میں عوام کی عظیم ترین کامیابی اور قومی سلامتی کی سب سے مضبوط ضمانت ہے۔" آج یہ سنگ میل طے کیے پچاس برس مکمل ہو رہے ہیں۔ اس گولڈن جوبلی کے موقع پر ہم جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سنگ میل تک پہنچنے میں 26 برس کیوں لگے؟ اور بالآخر اتفاق رائے کیسے قائم ہوا۔

جس آئین کا پتا نہیں، اسے بچائیں کیا خاک؟

 1956ء کے آئین میں تاخیر کے اسباب اور ایوب کا صدراتی آئین

پاکستان کو اپنا پہلا آئین تیار کرنے اور اسمبلی سے منظور کروانے میں نو برس لگے۔ سماجی علوم کے ممتاز سکالر اور انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد اس تاخیر کا ذمہ دار فوج، بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کو ٹھہراتے ہیں۔

 ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "بنگالی اکثریت میں تھے لیکن کوئی ان کی رائے تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ فوج، بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ چاہتی تھی کہ گورنر جنرل کا عہدہ برقرار رہے یا صدراتی نظام ہو تاکہ وہ اپنی من مرضی کریں۔ ایک سیاسی ابتری کا ماحول تھا۔"

سیاسی ابتری کے ماحول کا اندازہ لگانے کے لیے یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ 1951 اور 1958 کے دوران چھ وزرائے اعظم کو گھر جانا پڑا۔

پاکستانی آئین: ممکنہ بیسویں ترمیم کی مخالفت

 فروری 1956 کو منظور ہونے والے ملک کے پہلے آئین کے تحت 1959 کے آغاز میں انتخابات طے پا چکے تھے مگر سات اکتوبر 1958 کو صدر سکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ محض تین ہفتوں بعد جنرل ایوب خان نے انہیں چلتا کیا اور چار سال بعد 1962 کا صدراتی نظام متعارف کروایا۔ 

1971 - 1973 Präsident Pakistans Zulfikar Ali Bhutto
انیس سو تہتر کے آئین کی متفقہ منظوری کا سہرا اس وقت کے وزیر اعظم زوالفقار علی بھٹو کے سر باندھا جاتا ہےتصویر: imago/ZUMA/Keystone

دی نیو کانسٹیٹیوشن آف پاکستان کے مصنف ڈی پی سِنگھل  لکھتے ہیں، "ایوب خان اپنے صدراتی آئین میں وائسرائے ہند کی طرح طاقتور تھے۔ ان کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ وہ نہ صرف اسمبلی سے پاس ہونے والے کسی بھی بل کو کالعدم قرار دے سکتا تھے بلکہ  اسمبلی توڑنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے لامحدود اختیارات کے بھی حامل تھے۔ اتنا طاقتور تو امریکہ کا صدر بھی نہیں تھا۔"

ایوب خان نے جاتے ہوئے اپنے اختیارات یحیٰی خان کو سونپے اور یہاں سے پاکستان کی تاریخ ایک نئی کروٹ لیتی ہے۔ 

 آئین سازی کے لیے ایک سو بیس دن کی مہلت 

1970ء میں صدر یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر نافذ کیا اور اعلان کیا کہ ملک کی آئندہ اسمبلی 120 دن کے اندر اندر نیا آئین تشکیل دے ورنہ وہ اسمبلی کالعدم قرار دے دیں گے۔

کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹکل ہسٹری آف پاکستان کے مصنف حامد خان اپنی کتاب میں تفصیل سے ذکر کرتے ہیں کہ یحیٰی خان طویل عرصہ تک حکومت کے خواب سجائے بیٹھے رہے مگر مشرقی پاکستان کی غیر متوقع صورتحال نے سب کچھ چوپٹ کر دیا۔ اس کے باوجود انہیں اقتدار سے زبردستی الگ کرنا پڑا۔

1970 میں دستور ساز اسمبلی کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی اکثریت تھی۔ جنہوں نے عبوری آئین کے مطابق صدراتی حلف لیا اور پاکستان کو "مستقل آئین" دینے کے لیے اپوزیشن سے بات چیت شروع کی۔ 

 بھٹو: ٹو ایئرز آن کے مصنف ڈیوڈ ڈنبر کے بقول، "بھٹو کے پاس اکثریت تھی، انہیں یہ سیاسی اور اخلاقی حق حاصل تھا کہ اپنی مرضی کا آئین بنائیں لیکن انہوں نے اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ بٹھایا۔"

Pakistan Ex-Präsident Pervez Musharraf
تہتر کے آئین کے بعد ہونے والی فوجی بغاوتوں میں باوردی آمروں نے اس آئین کو بار ہا پامال کیا لیکن وہ اس کی روح کو ختم نہ کر سکےتصویر: Zia Mazhar/AP/picture alliance

 پارلیمانی جمہوری نظام پر اتفاق رائے

17 اپریل 1972 کو بھٹو نے وزیر قانون محمود علی قصوری کی سربراہی میں 25 رکنی کمیٹی تشکیل دی، جس میں اپوزیشن کے چھ ممبر شامل تھے۔ حامد خان کے بقول اخبارات میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ "بھٹو فرانسیسی طرز کا صدراتی نظام چاہتے ہیں، جس میں صدر طاقتور اور وزیراعظم اس کے تابع ہوتا ہے۔" اس کا ایک حوالہ آئین کی منظوری کے ٹھیک ایک سال بعد  16 اپریل 1974 کو بھٹو کی کوئٹہ میں کی گئی تقریر میں بھی ملتا ہے۔

 بھٹو کہتے ہیں، "ایک وہ وقت تھا جب ہمارے ساتھیوں کا یہ خیال تھا کہ ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں ۔ انہوں (اپوزیشن) نے کہا نہیں، ہم صدارتی نظام نہیں چاہتے۔  میں نے کہا، بڑی خوشی سے۔ آپ کون سا نظام چاہتے ہیں؟ پارلیمانی نظام؟ ٹھیک ہے۔ بعد میں ان کا کچھ خیال ہوا کہ فرانسیسی نظام چاہتے ہیں۔ پھر کہا فرانسیسی نظام نہیں چاہتے۔ کون سا چاہتے ہو؟ پھر کہا پارلیمانی۔" 

نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ ولی خان نے 20 اگست 1972 کو نامہ نگاروں  سے بات کرتے ہوئے کہا، "اقلیتی صوبے زیادہ سے زیادہ خودمختاری اور ایسے وفاقی طرز حکومت کا مطالبہ کرتے ہیں، جس میں پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہو اور ایوان بالا میں تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہو۔"

 حامد خان کے بقول بھٹو نے واضح کیا، "پی پی پی ملک کو ایسا وفاقی پارلیمانی آئین دینے کے لیے پرعزم ہے، جس کے دو بنیادی اصول ہوں، پہلا یہ کہ صوبوں کو خودمختاری حاصل ہو گی، دوسرا یہ کہ پارلیمانی نظام ہو، جس میں انتظامیہ مقننہ کو جواب دہ ہو گی۔"

ساؤتھ ایشین ہسٹری کے ماہر اور کانسٹی ٹیوشن میکنگ: دی ڈویلپمنٹ آف فیڈریشن اِن پاکستان کے مصنف ڈاکٹر کریگ بیکسٹر کہتے ہیں ،"پاکستان میں آئین سازی کے حوالے سے بنیادی جھگڑا 'صدارتی بمقابلہ پارلیمانی نظام' اور 'سیکولر بمقابلہ اسلامی ریاست' کا تھا، جو 1973 میں پہلی مرتبہ قابل اطمینان انداز میں حل ہوا۔"

دس اپریل 1973 کو قومی اسمبلی نے پہلے متفقہ آئین کی منظوری دی، جس پر بارہ اپریل کو صدر پاکستان نے دستخط کیے۔

چودہ اگست 1973 کو بیس ماہ تک صدر پاکستان رہنے کے بعد بھٹو نے وزارت عظمٰی کا حلف اٹھایا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "بالآخر آج ہم نے ہمیشہ کے لیے انقلاب اور فوجی بغاوت کا راستہ بند کر دیا، جس نے دو دہائیوں سے پاکستان کو مفلوج کر رکھا تھا۔" 

وزارت عظمی کی مضبوط کرسی اور آئین کا ارتقاء

1973 کے آئین کے تحت دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمینٹ وجود میں آئی اور پہلی بار سینٹ کا ارادہ متعارف کروایا گیا جس میں تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی حاصل تھی۔

ملکی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت عظمی کی کرسی کو ہر اعتبار سے تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا۔ کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹکل ہسٹری آف پاکستان کے مطابق "چیف ایگزیکٹو وزیراعظم تھا، جسے برطرف کرنے کا صدر کے پاس کوئی اختیار نہ تھا۔ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند تھا۔ اسمبلی محض وزیر اعظم کی ایڈوائس پر تحلیل کی جا سکتی تھی۔" 

مزید یہ کہ وزیر اعظم کو محض تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا تھا جس کے لیے الگ سے کم از کم آئندہ دس برس تک کے لیے کڑی شرائط رکھی گئی تھیں تاکہ نظام کچھ عرصہ ہموار طریقے سے چلتا رہے۔ 

اگرچہ یہ نظام زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور ضیاء الحق کا مارشل لا آ گیا مگر آئین کا ارتقاء پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ یوٹیوب پر موجود اپنی گفتگو میں وجاہت مسعود اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، "ایوب خان اور جنرل یحیٰی نے آئین منسوخ کیا تھا، ضیاء الحق آئین منسوخ نہیں کر سکے بلکہ انہیں معطل کر کے مارشل لا کا اعلان کرنا پڑا جبکہ مشرف مارشل لا کا اعلان بھی نہ کر سکے اگرچہ وہ مارشل لا ہی تھا۔"

 جبکہ ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں "آئین مثبت سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، 18 ویں ترمیم ایک عظیم پیش رفت ہے۔ اور اس سب کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے۔"