یہودی آبادکاری قیام امن کے لیے تعمیری رویہ نہیں، اوباما
21 مارچ 2013امریکی صدر باراک اوباما ان دنوں مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے سرکاری دورے پر ہیں۔ اس تین روزہ دورے کے دوران کل بدھ کو انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے تفصیلی مذاکرات کیے تھے۔ آج جمعرات کے روز امریکی صدر ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے یروشلم سے اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی اردن کے علاقے میں گئے تاکہ وہاں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کر سکیں۔
مقبوضہ مغربی اردن کے اپنے مختصر دورے کے دوران امریکی صدر نے اپنے فلسطینی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ رملہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس ملاقات میں فلسطینی صدر نے باراک اوباما کو بتایا کہ اسرائیل کے ساتھ قیام امن کی منزل خونریزی، قبضے اور یہودی آبادکاری جیسے ذرائع سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔
امریکی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں قیام امن کی کوششیں ترک نہیں کرنا چاہییں، چاہے امن کا حصول کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ باراک اوباما نے واضح طور پر کہا کہ وہ غزہ پٹی سے جنوبی اسرائیل میں حال ہی میں کیے جانے والے راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی باراک اوباما نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ اپنی بات چیت میں انہیں بتا دیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے منصوبے قیام امن میں کوئی مدد نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس طرح امن کوششیں آگے بڑھیں گی۔
امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکا فلسطینیوں کی ایک آزاد، خود مختار اور مستحکم ریاست کے قیام کا حامی ہے، جس کے لیے فریقین کے درمیان دو ریاستی حل ہی تنازعے کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
امریکی صدر نے اس سلسلے میں اپنی طرف سے کوئی نئی تجاویز پیش نہیں کیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اختلافات کو کم کرانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا کافی زیادہ وقت اور توانائی اسی مقصد کے لیے صرف کریں گے۔
خبر ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اوباما نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ صرف ان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہی ہیں۔
اس موقع پر محمود عباس نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کی اس خواہش کا اظہار کیا کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست اُن علاقوں میں قائم ہونی چاہیے جو1967ء کی جنگ سے پہلے اسرائیلی قبضے میں نہیں تھے۔ محمود عباس کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست مغربی اردن کے علاقے، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم کے علاقوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔
محمود عباس کے مطابق 1967ء کی جنگ کے دوران اپنے قبضے کے بعد سے اسرائیل مغربی اردن اور مشرقی یروشلم میں درجنوں یہودی بستیاں قائم کر چکا ہے۔ وہاں اب پانچ لاکھ ساٹھ ہزار اسرائیلی رہتے ہیں۔ محمود عباس نے کہا کہ ان مقبوضہ علاقوں کی یہودی آبادی میں صرف باراک اوباما کے صدر بننے کے بعد سے اب تک ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا ہے۔
صدر اوباما مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے کے تیسرے روز کل جمعے کو اردن چلے جائیں گے۔
(ij / km (AFP,dpa