1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت گولڈن ڈان کے خلاف کریک ڈاؤن

عاطف توقیر1 اکتوبر 2013

یونانی حکام نے انتہائی دائیں بازو کی گولڈن ڈان یا سنہری صبح نامی جماعت پر پابندی عائدکرتے ہوئے اس کی اعلیٰ قیادت کو حراست میں لے لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19sHY
تصویر: Reuters

اس جماعت کے ایک مبینہ رضاکار نے اینٹی فاشسٹ گلوکار کو بھرے مجمع میں قتل کر دیا تھا۔ جب کہ اس جماعت پر متعدد سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

دارالحکومت ایتھنز کے قریب رہنے 28 سالہ پاکستانی شہری آصف علی کو اپنے گھر سے باہر جاتے ہوئے انتہائی محتاط انداز سے راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ آصف علی پر گزشتہ کچھ عرصے میں انتہائی دائیں بازوکی جماعت گولڈن ڈان سے تعلق رکھنے والے افراد تین مرتبہ حملہ کر چکے ہیں۔ گولڈن ڈان نازی نظریات سے مرعوب جماعت ہے اور حال ہی میں اینٹی فاشسٹ گلوکار پاولوس فیساس کے قتل کے بعد اس جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔

آصف علی کے بقول اسے سیاہ لباس پہنے افراد کے ایک گروہ نے مار مار کر بے ہوش کر دیا۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد موٹر سائیکلوں پر سوارافراد اسے بس سے اتار کر زیر تعمیر ایک عمارت میں لے گئے اور وہاں لے جا کر اس کی ناک کی ہڈی توڑ دی۔ آصف علی کے بقول وہ خوف زدہ محسوس نہیں کرنا چاہتے مگر وہ خوف زدہ ہیں۔ ’میں عموماً رات گئے کافی پینے باہر جایا کرتا تھا اور دیر سے گھر لوٹتا تھا۔ تاہم اب میں باہر جاتے ہوئے دس بار سوچتا ہوں۔‘

Goldene Morgenröte Gericht 01.10.2013 Athen
اس جماعت پر سخت نوعیت کے متعدد الزامات عائد کیے جا رہے ہیںتصویر: Reuters

یونان میں اس جماعت کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی خبروں پر اب تک گولڈن ڈان کے حملوں سے متاثر ہونے والے افراد نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ تاہم ان افراد کا کہنا ہے کہ حکام کو اس سلسلے میں پہلے ہی کارروائی کرنا چاہیے تھی، تاکہ بہت سے افراد کے خلاف تشدد اور عقوبت کے واقعات سے بچا جا سکتا تھا اورگولڈن ڈان کے کارندوں کے ہاتھوں رات کے اندھیرے میں غیرملکی تارکین وطن کے خلاف حملے روکے جا سکتے۔

آصف علی کے گھر سے قریب ہی ایتھنز کے ضلع نیکیا میں ڈاکٹر پاناگیوٹِس پاپانیکولاؤ ایک عوامی ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ اس ہسپتال میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کے حملوں میں زخمی ہونے والوں کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔ ڈاکٹر پاناگیوٹِس پاپانیکولاؤ سن 1998ء میں ایسے ہی ایک حملے میں زخمی ہوئے تھے اور انہیں سر میں شدید چوٹیں آئیں تھیں۔ وہ کئی ماہ سے نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے خبردار کرتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تشدد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد نہ صرف غیرملکیوں پر حملے کر رہے ہیں بلکہ حال ہی میں یونانی باشندوں پر بھی حملوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اعداد و شمار تو نہیں بتائے تاہم کہا کہ ان حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں ایسے افراد لائے جا رہے ہیں جن کی گردن اور چہرے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آور چاقوؤں اور اسکرو ڈرائیور کا استعمال کرتے ہیں۔ نیکیا جنرل ہسپتال میں نیورو سرجن کی ذمہ داریاں انجام دینے والے ڈاکٹر پاناگیوٹِس پاپانیکولاؤ کے مطابق یہ صرف خوش قسمتی کی بات ہے کہ اب تک ان حملوں میں زیادہ اموات نہیں ہوئی ہیں، کیوں کہ حملے جس شدت سے کیے گئے ہیں، اس سے کسی شخص کے سر میں کئی انچ گہرا زخم کر کے کھوپٹری توڑنے کی کوشش کی جاتی نظر آتی ہے، جس کا مقصد اس شخص کے قتل کے سوا کچھ اور نہیں۔

نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات پر نگاہ رکھنے والے ادارے ریسسٹ وائلنس ریکارڈنگ نیٹ ورک کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں دارالحکومت ایتھنز سمیت یونان کے متعدد مقامات پر نسلی بنیادوں پر ہونے والے ان حملوں کی تعداد تین سو کے قریب تھی، جس کا مطلب اوسطاﹰ ہفتے میں ایسے تین حملے بنتا ہے جب کہ ان میں سے نصف حملوں کا نشانہ بننے والے افراد شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے ہیں۔