1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کی طرف تارکین وطن کا بہاؤ روکنے کی مصر کی کوشش

23 فروری 2022

ہنگری کے وزیر خارجہ نے یورپ کی طرف تارکین وطن کا بہاؤ روکنے کی مصری کوششوں کو سراہتے ہوئے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ مصر کی اس سلسلے میں حمایت کرے اور اس کے لیے فنڈنگ کے ذریعے مدد کرے۔

https://p.dw.com/p/47UTR
Ägypten Besuch des ungarischen Außenminister Peter Szijjarto
تصویر: Khaled Elfiqi/EPA-EFE

یورپ کی طرف تارکین وطن کے بہاؤ کا مرکزی راستہ بحیرہ روم کا ساحلی علاقہ ہوتا ہے۔ شمالی افریقہ کو مشرق وسطیٰ سے ملانے والا ملک مصر کچھ عرصے سے یورپ کی طرف بڑھتے ہوئے تارکین وطن کے سیلاب کو ممکنہ حد تک کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مصر کے دورے پر گئے ہوئے ہنگری کے وزیر خارجہ نے بُدھ کو بحیرہ روم کے ساحل پر پورپ پہنچنے کی کوششوں میں مصروف تارکین وطن کے بہاؤ کو روکنے کی مصری حکومت کی کوششوں کی تعریف کی۔ مصری دارالحکومت قاہرہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہنگری کے وزیر خارجہ Szijjarto Peter نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ مصر کی اس سلسلے میں حمایت میں اضافہ کرے اور قاہرہ حکومت کے لیے مدد کے طور پر فنڈنگ کا بندو بست کرے۔ ہنگری کے وزیر خارجہ نے یہ بیانات اپنے مصری ہم منصب سامع شکری کے ساتھ ملاقات کے بعد دیے۔

بین الاقوامی ادارہ برائے ترک وطن کے مطابق مصر اس وقت چھ ملین سے زائد مہاجرین یا تارکین وطن کی میزبانی کرنے والا ملک ہے۔ ان تارکین وطن میں سے نصف تعداد یعنی تین ملین افریقی ملک سوڈان، خاص طور سے جنوبی سوڈان کے باشندے ہیں۔

یونانی جزیرے پر مہاجر کیمپ میں نوجوان افغان خاتون جل کر ہلاک

Ägypten Besuch des ungarischen Außenminister Peter Szijjarto
ہنگری کے وزیر خارجہ اپنے مصری ہم منصب کیساتھتصویر: Khaled Elfiqi/EPA-EFE

اس افریقی ملک میں پائے جانے والے تنازعات کے سبب ہر سال دسیوں ہزار انسان گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بہت سے تارکین وطن کے لیے مصر ایک پناہ گاہ اور منزل ہے جو ان کے قریب ترین واقع ملک ہے جہاں داخل ہونا ان کے لیے سب سے زیادہ آسان عمل ہے۔ دوسری جانب ایسے افراد بھی ہیں جن کے لیے یورپ کی طرف بڑھتے ہوئے، بحیرہ روم کو عبور کرنے کی خطرناک کوشش کے لیے مصر ایک اہم گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مصری حکومت نے حالیہ برسوں میں تارکین وطن کے لیے کافی سختی بھی کی ہے۔ قاہرہ حکومت نے سرحدی سکیورٹی اقدامات سخت تر کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ مصر یورپ میں داخلے کے خواہش مند تارکین وطن کے لیے سب سے بڑا اور روانگی کا مرکزی مقام نہ بنے۔  2015 ء سے یورپی یونین میں شامل کئی ممالک نے اپنی اپنی قومی اور یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی نگرانی کے لیے خار دار باڑیں بھی لگا دی ہیں۔ ساتھ ہی سرحدی نگرانی کے لیے ڈرون بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یورپی یونین نے ترکی اور لیبیا کے ساتھ تارکین وطن کو روکنے کے حوالے سے معاہدے بھی کیے ہیں۔

ٹرکوں سے چھلانگ لگا کر، برطانیہ پہنچنے کی کوشش: تارکین وطن کا کیا بنے گا؟

 

Seenotrettung im Mittelmeer
ہر سال بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن نہایت خطرناک حالات سے گزرتے ہیںتصویر: Hermine Poschmann/Mission Lifeline/dpa/picture alliance

ادھر ہنگری کے عوامیت پسند وزیر اعظم وکٹور اوربان یورپ میں تارکین وطن کی آمد کے سخت مخالف ہیں اور اس سوچ کا اظہار واضح انداز میں کر تے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ رکھا ہے، ''تارکین وطن یورپ کی مسیحی اقدار اور ثقافت میں تبدیلی کا ایک بڑا خطرہ ہیں۔ مزید یہ کہ غیر قانونی تارکین وطن کووڈ انیس جیسی بیماری کا سبب بننے والے مختلف وائرس ویریئنٹس کو یورپ لانے اور یہاں پھیلانے کا سبب بھی بنے ہیں۔‘‘

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے گزشتہ ماہ تارکین وطن کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپ کے طریقہ کار اور یورپی سرحدوں تک پہنچنے والے مہاجرین کو یورپ میں داخل نہ ہونے دینے پر سخت تنقید کی تھی۔سات بنگلہ دیشی سمندر میں ٹھٹھر کر مر گئے، مصری اسمگلر گرفتار

 

ک م / م م (اے پی ای)