یورپ میں مزدورں کا استحصال
2 جون 2015منگل کو منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں ایف آر اے نے کہا ہے کہ مزدوروں کے استحصال کے دائرہ کار اور اس بارے میں کوئی حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے وسیع پیمانے پر یورپی ممالک میں مزدورں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کیونکہ مختلف یورپی ممالک میں مزدوروں پر جبر کی تعریف الگ الگ طرح سے کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف اقدامات بھی مختلف نوعیت کے کیے جاتے ہیں۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی حتمی اندازہ لگانا اس لیے بھی بہت مشکل ہے کہ زیادہ تر متاثرہ افراد اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کے بارے میں کبھی رپورٹ نہیں کرتے ہیں۔
مزدوروں کا مجرمانہ استحصال
ایف آر اے کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے،’’ مزدوروں کے استحصال کے کیسس کی تعداد کے تعین میں نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن ’آئی ایل او‘ کے اندازوں کے مطابق دنیا بھرمیں ہر ایک ہزار مزدورں میں سے قریب تین کو کسی نا کسی وقت جبری مشقت کی چکی میں پیسا جا رہا ہوتا ہے۔ آئی ایل او کی یہ رپورٹ 2002 ء سے 2011 ء کے دوران یعنی دس سالوں پر محیط اعداد و شمار اور اندازوں کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے‘‘۔
یہ رپورٹ 217 کیسس سے متعلق تجزیاتی جائزوں پر مشتمل ہے جس میں خاص طور سے ذراعت، تعمیرات، ہوٹل اور کیٹرنگ، گھریلو کام کاج اور صنعتکاری کے شعبے میں مزدوروں کے ساتھ ہونے والے استحصال کی مثالیں شامل ہیں۔ ایف آر اے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مزدوروں کا استحصال کرنے والوں کو کسی قانونی چارہ جوئی یا متاثرہ افراد کے لیے معاوضے کا کوئی خاص ڈر بھی نہیں ہوتا۔
استحصال کی نوعیت
یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق ایف آر اے کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف جغرافیائی خطوں اور اقتصادی سیکٹرز میں استحصال کے شکار مزدورں کے ساتھ ہونے والے سلوک میں کچھ قدریں مشترک ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر مزدورں کو ایک یورو یا اُس سے بھی کم یومیہ اُجرت دی جاتی ہے، ان سے دن میں 12 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ اور ہفتے میں چھ سے سات دن مزدوری لی جاتی ہے۔ انہیں انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال میں رکھا جاتا ہے۔ ان مزدوروں کو تعطیلات میسر نہیں ہوتیں نا ہی بیمار پڑنے پر یہ چھٹی کر سکتے ہیں۔
استحصال کے خلاف اقدامات
ایف آر اے نے یورپی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزدورں کے کام کی جگہ کی معائنہ کاری کے نظام کوموثر اور مفصل بنائیں۔ اس نظام میں پولیس اور پبلک پروسیکیوٹرز کی قریبی رابطہ کاری شامل ہو۔ مثاثرہ افراد یا استحصال کے شکار مزدرورں کی انصاف کے اداروں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ پرائیوٹ کمپنیاں اور نیشنل اتھاریٹیزکو لیبر استحصال کرنے والوں کی پُشت پناہی سے باز رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مزدوروں کا استحصال کرنے والی کمپنیوں اور ذیلی کمپنیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
سب سے اہم اور حتمی قدم یہ اٹھایا جانا چاہیے کہ صارفین میں اس امر کی آگاہی اور ادراک کو فروغ دیا جائے کہ جن اشیا یا سروس کا وہ استعمال کرتے ہیں اُسے تیار کرنے والے مزدورں کا کس درجہ استحصال ہوا ہے۔