یورپی یونین کے ’گولڈن ویزہ پروگرام‘ پر شدید تنقید
10 اکتوبر 2018انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف گروپوں کا کہنا ہے کہ دولت مند افراد کو یورپی یونین کے ان ممالک کی طرف سے اپنے پاسپورٹ بیچنے اور رہائشی پرمٹ فراہم کرنے سے منی لانڈرگ کا خدشہ بہت بڑھ جاتا ہے اور ان میں سے کئی ممالک کی اسکیمیں اچھے طریقے سے نہیں چلائی جا رہیں۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور گلوبل ویٹنس کی طرف سے جاری کردہ ايک مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھاری سرمایہ کاری کے بدلے شہریت حاصل کرنے کی ایسی اسکیمیں یورپ کے تیرہ ممالک میں جاری ہیں۔ ان ممالک میں آسٹریا، قبرص، لکسمبرگ، مالٹا، یونان، لٹویا، پرتگال، اسپین، آئر لینڈ، برطانیہ، بلغاریہ، ہالینڈ اور فرانس شامل ہیں جبکہ ہنگری نے یہ پروگرام معطل کر دیا ہے۔
پاکستانی شہریوں کے لیے جرمن ویزے کا حصول کتنا مشکل ہے؟
گلوبل ویٹنس سے منسلک کارکن ناؤمی ہرسٹ کا کہنا تھا، ’’اگر آپ نے مشکوک ذرائع سے بہت سا پیسہ کمایا ہوا ہے، ان حالات میں اس پیسے کو محفوظ بنانے کے لیے آپ کو کسی دوسری جگہ ٹھکانا فراہم کر دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ اسکیمیں بہت پرکشش ہیں۔‘‘ ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین کے ممالک کے پاسپورٹ یا رہائشی پرمٹ خریدنے والوں سے متعلق جانچ پڑتال کرنے کا طریقہ کار اطمینان بخش نہیں ہے اور اس سے منی لانڈرنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی اسکمیں چلانے والوں کے لیے سخت قواعد و ضوابط متعارف کرائے اور رہائشی پرمٹ اسکیموں میں ملوث تمام فریقین کے حوالے سے منی لانڈرنگ قوانین متعارف کرائے جائيں۔ انہوں نے اس میں بینکوں کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کے ان گروپوں کے مطابق ان ممالک کے رہائشی پرمٹ حاصل کرنے کے لیے اوسطاﹰ نو لاکھ یورو درکار ہوتے ہیں جبکہ قبرض کے پاسپورٹ کی قیمت بیس لاکھ یورو ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں ان ممالک نے چھ ہزار پاسپورٹ اور ایک لاکھ رہائشی پرمٹ فروخت کیے ہیں۔ اس طرح ان یورپی ممالک میں پچیس بلین یورو لائے گئے۔
ا ا / ع س (نیوز ایجنسیاں)