1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین اور امریکا فری ٹریڈ زون کے قیام کے ‌خواہش مند

27 فروری 2013

دنیا کی دو بہت بڑی اقتصادی طاقتیں امریکا اور یورپی یونین مل کر ایسا آزاد تجارتی خطہ قائم کرنا چاہتی ہیں جس سے ان کے علاوہ عالمی معیشت کو بھی بہت فائدہ ہو گا لیکن اس فری ٹریڈ زون کی راہ میں کئی بڑی رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔

https://p.dw.com/p/17n1O
تصویر: Christian Spahrbier

یورپی یونین اور امریکا کے مابین ایسا کوئی بھی آزاد تجارتی معاہدہ طے پا جانے کے نتائج کتنے اچھے ہوں گے، اس بارے میں ماہرین اقتصادیات کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہے۔ یوں مستقبل قریب میں یہ بھی ممکن ہو سکے گا کہ عالمی اقتصادی ضابطوں کی تشکیل میں کافی حد تک فیصلہ کن آواز چین کی نہیں بلکہ مغربی دنیا کی ہو گی۔

اس آزاد تجارتی معاہدے کے بارے میں کسی بھی ناقد کو قائل کر دینے والی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکا اور یورپی یونین کے مابین تجارت طویل عرصے سے دنیا کی سب سے بڑی دوطرفہ تجارتی پارٹنرشپ ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کے مابین سالانہ تجارت کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فریقین کے درمیان تجارتی مصنوعات اور پیشہ ورانہ خدمات کے تبادلے کی یومیہ مالیت 1.8 بلین یورو سے زائد بنتی ہے۔ ان دونوں خطوں کا عالمی اقتصادی کارکردگی میں حصہ بھی قریب 50 فیصد بنتا ہے۔

Textilbranche EU China neu
چین کے لیے یورپی یونین اور امریکا دیگر شعبوں کے علاوہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی بھی بہت بڑی منڈیاں ہیںتصویر: picture alliance / Newscom

امریکا اور یورپی یونین کی مجموعی آبادی قریب 800 ملین ہے۔ یورپی یونین کا اندازہ ہے کہ اگر برسلز اور واشنگٹن کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ طے پا جائے تو اکیلے یورپی یونین کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں 0.5 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آئے گا، جس کی سالانہ مالیت 65.7 بلین یورو کے قریب بنے گی۔ اسی طرح اس ممکنہ دو طرفہ معاہدے سے امریکی معیشت کی سالانہ کارکردگی میں بھی اتنا ہی اضافہ ہو سکے گا۔

یورپ میں اس بارے میں پہلے ہی سے وسیع تر سیاسی رضامندی پائی جاتی ہے کہ بحر اوقیانوس کے دونوں طرف کے خطوں کو مل کر ایک آزاد تجارتی علاقہ قائم کرنا چاہیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اس منصوبے کی حمایت کر چکے ہیں۔ گزشتہ برس موسم گرما میں تو ایک یورپی امریکی ورکنگ گروپ نے بھی اس بارے میں اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے ایسا ایک فری ٹریڈ زون قائم کرنے کی حمایت کر دی تھی۔

اس ورکنگ گروپ کی سفارشات کے بعد یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئل باروسو اور امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اس بارے میں اشارے دیے تھے کہ وہ بھی اس یورپی امریکی آزاد تجارتی علاقے کے قیام کے حامی ہیں۔

اس منصوبے سے متعلق ٹرانس اٹلانٹک ورکنگ گروپ کی جو حتمی رپورٹ آئندہ چند روز میں باقاعدہ طور پر پیش کر دی جائے گی، اس میں اس فری ٹریڈ زون کے قیام کے لیے فریقین کے مابین مذاکرات کے باقاعدہ آغاز کی سفارش کی جانا بھی بظاہر ایک یقینی سی بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ آیا یورپی امریکی فری ٹریڈ زون مستقبل میں واقعی حقیقت کا روپ دھار لے گا۔

Nahrungsmittel Herstellung Gesundheit
جرمنی میں جینیاتی تبدیلیوں کے بعد حاصل ہونے والی زرعی پیداوار سے تیار کردہ اشیائے خوراک کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ماحولیاتی کارکن، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

برسلز میں قائم یورپی پالیسی علوم کے مرکز کے ڈائریکٹر ڈانیئل گروس کی رائے میں یہ آزاد تجاری علاقہ قائم تو ہونا چاہیے لیکن اس کی راہ میں کئی بڑی رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بڑی رکاوٹ وہ بہت سے یورپی اور امریکی ریگولیٹری محکمے ہیں جو آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

ڈانیئل گروس اس کی صرف ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا میں خوراک اور دوا سازی کے شعبے کا نگران ملکی ادارہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی FDA ہے، جس کا کام انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔ آزاد تجارتی معاہدے کے سلسلے میں صرف دوا سازی ہی کے شعبے میں ایک بہت اہم سوال یہ ہو گا کہ آیا ایف ڈی اے یورپی یونین میں تیار کی جانے والی بے شمار ادویات کے معیاری ہونے کی اسناد کو بلا اعتراض قبول کر لے گا اور پھر کیا متعلقہ یورپی محکمہ بھی ایف ڈی اے کی جاری کردہ تمام امریکی میڈیکل سرٹیفیکیشنز تسلیم کرے گا؟

اس کے علاوہ امریکا اور یورپی یونین کے مابین کئی دیگر امور بھی ممکنہ رکاوٹیں ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثلاﹰ یورپی یونین یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جینیاتی تبدیلیوں کے بعد جو اشیائے خوراک تیار کی جاتی ہیں، صارفین کے لیے انہیں علیحدہ سے شناخت کر سکنا ممکن ہونا چاہیے لیکن امریکا میں اشیائے خوراک تیار کرنے والے پیداواری اداروں سے ایسا کوئی لازمی قانونی مطالبہ نہیں کیا جاتا۔

ایسے کسی بھی یورپی امریکی تجارتی معاہدے کی امریکی کانگریس اور یورپی پارلیمان کی طرف سے منظوری بھی لازمی ہو گی۔ لیکن بہت سے ماہرین اقتصادیات کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ جب اس بارے میں برسلز اور واشنگٹن مستقبل قریب میں اپنے مذاکرات شروع کریں تو ان کی تیز رفتاری اور نظام الاوقات پہلے سے طے ہونے چاہییں۔

M. Knigge, mm / R. Mudge, ai