1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورو وژن‘ کے فائنل کے منتظر یورپی شائقین

15 مئی 2013

18 مئی ہفتے کے روز گیتوں کا یورپی مقابلہ سویڈن کے تیسرے بڑے شہر مالمو میں منعقد ہو گا۔ منتظمین کا دعویٰ ہے کہ یہ سراسر ایک تفریحی شو ہو گا لیکن دیکھا جائے تو ہر سال منعقد ہونے والا یہ اجتماع کبھی بھی غیر سیاسی نہیں رہا۔

https://p.dw.com/p/18Xv3
تصویر: DW/A. Brenner

یورپی سانگ کنٹیسٹ (ESC) یعنی گیتوں کے یورپی مقابلے کے قواعد و ضوابط میں صاف صاف لکھا ہوتا ہے کہ ’مقابلے کے دوران سیاسی نوعیت کی عبارتیں، تقاریر اور اشارے ممنوع ہیں‘۔ لیکن دیکھا جائے تو موسیقی کا کوئی مقابلہ کرنے کے بنیادی تصور کے پیچھے سیاسی وجوہات کارفرما تھیں۔

1956ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوگانو میں منعقد ہونے والے یورپی گیتوں کے پہلے مقابلے میں سات ملکوں نے حصہ لیا تھا۔ یہ ممالک بیلجیم، وفاقی جمہوریہ جرمنی، ہالینڈ، لکسمبرگ، اٹلی، فرانس اور سوئٹزرلینڈ تھے، جو اُس سے گیارہ سال پہلے دوسری عالمی جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے تھے۔ تب یہ مقابلہ ایک طرح سے ان ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کی ایک علامت تھا۔

1982ء کا یورو وژن مقابلہ جیتنے والی جرمن گلوکارہ نکول
1982ء کا یورو وژن مقابلہ جیتنے والی جرمن گلوکارہ نکولتصویر: picture-alliance/dpa

وفاقی جمہوریہ جرمنی نے سب سے پہلے یہ مقابلہ 1982ء میں جیتا تھا۔ تب امن کی تحریک اپنے نقطہء عروج پر تھی اور جرمن گلوکارہ نے ’آئن بسچن فریڈن‘ یعنی ’اک ذرا سا امن‘ گا کر پورے یورپ کے دل موہ لیے تھے۔

یورو وژن مقابلے میں محبت، امن اور دوستی کے نغمات کا خیر مقدم کیا جاتا ہے لیکن ایسے نغمات قبول نہیں کیے جاتے، جن سے کسی ملک کے عوام کی دلآزاری کا پہلو نکل سکتا ہو۔ مثلاً 2009ء میں جارجیا ماسکو میں اپنا وہ گیت پیش کرنا چاہتا تھا، جس کا ٹائیٹل تھا، ’وُوئی ڈونٹ وانا پُٹ اِن‘۔ تاہم اس مقابلےکے منتظم ادارے EBU یعنی یورپی براڈکاسٹنگ یونین نے منع کر دیا۔ روس اور جارجیا کی جنگ کے ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد اس گیت کے ٹائیٹل میں چُھپا لفظوں کا کھیل واشگاف انداز میں بتا رہا تھا کہ ’ہم پوٹن کو نہیں چاہتے‘۔

پھر جب یورو وژن کا انعقاد آذربائیجان کے شہر باکو میں ہونا قرار پایا تو یورپی ذرائع ابلاغ میں گرما گرم بحث شروع ہو گئی کہ کیا یہ تفریحی شو واقعی ایک ایسے ملک میں منعقد ہونا چاہیے، جہاں انسانی حقوق کی پامالی روز مرہ کا معمول ہے۔ تب ایک مختصر عرصے تک اس ملک کے حالات کو قریب سے دیکھا جاتا رہا۔ اگرچہ وہاں حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن اس مقابلے کی وجہ سے آذربائیجان کے حقوقِ انسانی کے علمبرداروں، اپوزیشن کے سیاستدانوں اور آزاد صحافیوں کو اتنا موقع ضرور مل گیا کہ وہ اپنا موقف یورپی پریس میں پیش کر سکیں۔

2013ء کے یورو وژن مقابلے میں اپنے بینڈ کاسکاڈا کے ساتھ جرمنی کی نمائندگی کرنے والی گلوکارہ ناطالی ہورلر
2013ء کے یورو وژن مقابلے میں اپنے بینڈ کاسکاڈا کے ساتھ جرمنی کی نمائندگی کرنے والی گلوکارہ ناطالی ہورلرتصویر: DW/A. Brenner

منگل 14 مئی کو منعقد ہونے والے اس سال کے یورو وژن کے پہلے سیمی فائنل میں سولہ ملکوں کے گلوکاروں اور بینڈز نے حصہ لیا۔ دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اس شو میں فیورٹ ممالک ڈنمارک، روس اور یوکرائن کے ساتھ ساتھ مولداویہ، لیتھوانیا، آئر لینڈ، ایستونیا، سفید روس، بیلجیم اور ہالینڈ بھی فائنل کے لیے کوالیفائی کر گئے۔ جو چھ ممالک فائنل تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے، وہ تھے، آسٹریا، سلووینیا، کروشیا، مونٹی نیگرو، قبرص اور سربیا۔

جمعرات کو دوسرے سیمی فائنل میں سترہ ممالک شریک ہو رہے ہیں، جن میں سے مزید دس ممالک فائنل کے لیے کوالیفائی کریں گے۔ جہاں دونوں سیمی فائنلز کے نتیجے میں بیس ممالک فائنل تک پہنچیں گے، وہاں جرمنی سمیت چھ ممالک ابھی سے فائنل تک پہنچ چکے ہیں۔ اس بار یورو وژن میں جرمنی کی نمائندگی میوزک گروپ کاسکاڈا کرے گا، جس میں اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی، گلوکارہ ناطالی ہورلر اور جو گیت وہ اس بار پیش کر رہی ہیں، اُس کا ٹائیٹل ہے، ’گلوریس‘۔

جرمنی، اسپین، اٹلی، برطانیہ اور فرانس گیتوں کے اس یورپی مقابلے کے لیے سب سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے والے ملکوں کی حیثیت سے خود بخود فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں جبکہ فائنل کے لیے خود بخود منتخب ہونے والا چھٹا ملک سویڈن ہے، جسے یہ اعزاز اس لیے ملا ہے کیونکہ وہ اس سال اس شو کی میزبانی کر رہا ہے۔

A.Brenner/aa/ai