یمنی بحران، سعودی درخواست: پاکستانی پارلیمان کا اجلاس آج سے
6 اپریل 2015اسلام آباد سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یمن کے حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے بین الاقوامی عسکری اتحاد میں شمولیت کے لیے ریاض حکومت کی درخواست نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے لیے اس وجہ سے ایک بڑی سیاسی مشکل پیدا کر رکھی ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا بہت قریبی حلیف ملک ہے لیکن بہت سے پاکستانی باشندے اور کئی سیاسی جماعتیں اس بات کے خلاف ہیں کہ اسلام آباد اس جنگ کا ایک فریق بن جائے۔
سنی اکثریتی آبادی والے پاکستان کو یمنی باغیوں کے خلاف عسکری اتحاد میں شمولیت کی دعوت دینے والا ملک سعودی عرب خلیج کی سب سے بااثر اور پاکستان ہی کی طرح سنی اکثریتی آبادی والی ریاست ہے۔ اس اتحاد کی طرف سے گزشتہ مہینے سے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف حوثی شیعہ باغیوں کو ایران کی حمایت بھی حاصل ہے جو پاکستان کا ہمسایہ اور شیعہ اکثریتی آبادی والا ملک ہے۔
ان حالات میں پاکستانی حکومت کی طرف سے یمنی باغیوں کے خلاف عسکری اتحاد میں شمولیت یا عدم شمولیت کا کوئی بھی ممکنہ فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہو گا تاہم پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف یہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اسلام آباد سعودی عرب کی ریاستی یکجہتی اور خود مختاری پر کیے جانے والے کسی بھی حملے کے خلاف ریاض حکومت کے شانہ بشانہ ہو گا۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کیا کہ اسلام آباد نے سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کو درپیش کسی بھی خطرے کے خلاف ریاض حکومت کی مدد کا جو اعلان کر رکھا ہے، اس کے تحت پاکستان کس طرح کے اقدامات کر سکتا ہے۔
اس کا فیصلہ اسلام آباد حکومت اپنے طور پر کرنے کی بجائے پارلیمان کی سطح پر کرنا چاہتی ہے تاکہ کسی بھی فیصلے کو عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے کیے جانے والے فیصلے کی شکل میں کم سے کم متنازعہ بنایا جا سکے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ایک ماہر عارف رفیق کے مطابق پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ سعودی عرب کی اسلام آباد سے وابستہ توقعات کو کم سے کم حد تک پورا کرے۔ عارف رفیق کے بقول، ’’اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ پاکستان حوثی باغیوں کے خلاف یمن کے اندر کی جانے والی کسی بھی کارروائی میں کوئی بہت بامعنی حصہ لے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ پاکستان یمن کے ساتھ سعودی سرحدوں کو اپنے فوجیوں کی تعیناتی کے ساتھ محفوظ بنانے کی کوشش کرے گا۔‘‘
کئی پاکستانی تجزیہ کاروں کے مطابق یمن کے خلاف سعودی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے کسی بھی فیصلے میں سب سے اہم آواز پاکستانی فوجی قیادت کی ہو گی اور اب تک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے احتراز کرتے آئے ہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہو گا کہ پاکستانی حکومت اور پارلیمان جو بھی فیصلہ کرے، وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ اپنے کسی بھی اقدام سے سعودی عرب کے حریف لیکن اپنے ہمسایہ ملک ایران کو خفا کر دیں، خاص طور پر اس تناظر میں کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اسی ہفتے پاکستان کا دورہ بھی کرنے والے ہیں۔