1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی بحران، سعودی درخواست: پاکستانی پارلیمان کا اجلاس آج سے

مقبول ملک6 اپریل 2015

پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا ایک مشترکہ اجلاس آج پیر سے شروع ہو رہا ہے، جس میں سعودی عرب کی اس درخواست پر بحث کی جائےگی کہ اسلام آباد کو یمن کے خلاف کارروائیوں میں شمولیت کے لیے اپنے فوجی دستے مہیا کرنے چاہییں۔

https://p.dw.com/p/1F33h
تصویر: Reuters

اسلام آباد سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یمن کے حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے بین الاقوامی عسکری اتحاد میں شمولیت کے لیے ریاض حکومت کی درخواست نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے لیے اس وجہ سے ایک بڑی سیاسی مشکل پیدا کر رکھی ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا بہت قریبی حلیف ملک ہے لیکن بہت سے پاکستانی باشندے اور کئی سیاسی جماعتیں اس بات کے خلاف ہیں کہ اسلام آباد اس جنگ کا ایک فریق بن جائے۔

سنی اکثریتی آبادی والے پاکستان کو یمنی باغیوں کے خلاف عسکری اتحاد میں شمولیت کی دعوت دینے والا ملک سعودی عرب خلیج کی سب سے بااثر اور پاکستان ہی کی طرح سنی اکثریتی آبادی والی ریاست ہے۔ اس اتحاد کی طرف سے گزشتہ مہینے سے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف حوثی شیعہ باغیوں کو ایران کی حمایت بھی حاصل ہے جو پاکستان کا ہمسایہ اور شیعہ اکثریتی آبادی والا ملک ہے۔

Pakistan Parlament in Islamabad
پاکستانی حکومت کی طرف سے یمنی باغیوں کے خلاف عسکری اتحاد میں شمولیت یا عدم شمولیت کا کوئی بھی فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہو گاتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

ان حالات میں پاکستانی حکومت کی طرف سے یمنی باغیوں کے خلاف عسکری اتحاد میں شمولیت یا عدم شمولیت کا کوئی بھی ممکنہ فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہو گا تاہم پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف یہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اسلام آباد سعودی عرب کی ریاستی یکجہتی اور خود مختاری پر کیے جانے والے کسی بھی حملے کے خلاف ریاض حکومت کے شانہ بشانہ ہو گا۔

پاکستان کی موجودہ حکومت نے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کیا کہ اسلام آباد نے سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کو درپیش کسی بھی خطرے کے خلاف ریاض حکومت کی مدد کا جو اعلان کر رکھا ہے، اس کے تحت پاکستان کس طرح کے اقدامات کر سکتا ہے۔

اس کا فیصلہ اسلام آباد حکومت اپنے طور پر کرنے کی بجائے پارلیمان کی سطح پر کرنا چاہتی ہے تاکہ کسی بھی فیصلے کو عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے کیے جانے والے فیصلے کی شکل میں کم سے کم متنازعہ بنایا جا سکے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ایک ماہر عارف رفیق کے مطابق پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ سعودی عرب کی اسلام آباد سے وابستہ توقعات کو کم سے کم حد تک پورا کرے۔ عارف رفیق کے بقول، ’’اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ پاکستان حوثی باغیوں کے خلاف یمن کے اندر کی جانے والی کسی بھی کارروائی میں کوئی بہت بامعنی حصہ لے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ پاکستان یمن کے ساتھ سعودی سرحدوں کو اپنے فوجیوں کی تعیناتی کے ساتھ محفوظ بنانے کی کوشش کرے گا۔‘‘

کئی پاکستانی تجزیہ کاروں کے مطابق یمن کے خلاف سعودی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے کسی بھی فیصلے میں سب سے اہم آواز پاکستانی فوجی قیادت کی ہو گی اور اب تک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے احتراز کرتے آئے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہو گا کہ پاکستانی حکومت اور پارلیمان جو بھی فیصلہ کرے، وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ اپنے کسی بھی اقدام سے سعودی عرب کے حریف لیکن اپنے ہمسایہ ملک ایران کو خفا کر دیں، خاص طور پر اس تناظر میں کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اسی ہفتے پاکستان کا دورہ بھی کرنے والے ہیں۔