1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یادوں کی کنجی‘ موجوں کی نذر

عدنان اسحاق1 دسمبر 2015

علاء الطرش کا تعلق فلسطین سے ہے اور آبائی گھر کی چابی ان کے لیے ایک انتہائی خوبصورت یاد تھی۔ جرمنی کی جانب سفر کے دوران انہیں یہ یاد سمندر برد کرنا پڑ گئی اور اب اس زندگی میں ان کی توجہ کا مرکز ان کی فلمیں بن گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HFFX
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis

علاء العطرش کہتے ہیں کہ وہ اپنے اہل خانہ، دوستوں اور اس جگہ کو بہت یاد کرتے ہیں، جہاں وہ پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ وہ ایک فلسطینی نژاد شامی ہیں اور عملی طور پر ان کے خاندان کو دو مرتبہ ہجرت کرنا پڑی ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے آباء و اجداد کو ناصرہ سے شام آنا پڑا۔ علاء شامی شہر حماء کے قریب ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ’’میرے ذہن میں ہمیشہ یہ رہا کہ ہم عارضی طور پر یہاں ہیں کیونکہ میری دستاویز پر لکھا تھا کہ یہ رہائش کا عارضی اجازت نامہ ہے‘‘۔

وہ دمشق کے فلسطینیوں کی اکثریتی آبادی والے ایک علاقے میں پروان چڑھے۔ تاہم اس کے باوجود بھی اپنے آبائی وطن سے ان کا ایک طرح سے تعلق قائم تھا اور وہ تھا ناصرہ میں ان کے آبائی گھر کی چابی۔ اس گھر کی تصاویر اور یہ چابی انہیں ان کے دادی دادا نے دی تھی۔ کئی دیگر فلسطینیوں کو بھی علاء کی طرح ایسی چیزیں علامتی طور پر اُن کے رشتے داروں کی طرف سے دی گئی تھیں۔

DW Kultur Serie Mein Stück Heimat - Alaa Khaled EINSCHRÄNKUNG
تصویر: Alaa Khaled

علاء نے اپنی یادوں کے اس ذخیرے کو اُس وقت موجوں کی نذر کیا، جب وہ ترکی سے ایک کشتی کے ذریعے یونان آ رہے تھے۔ ’’میں وہ وقت یاد نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ اب علاء کے پاس کوئی ایسی شے نہیں ہے، جو انہیں ان کے ماضی کی یاد دلا سکے۔ علاء کے والد کے لیے بھی یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا لیکن ان کے لیے اہمیت اس بات کی تھی کہ ان کے بچے محفوظ زندگی گزاریں۔ اس کے علاوہ علاء نے دمشق میں جو دو فلمیں بنائی تھی وہ بھی بحیرہ ایجیئن کے پانیوں میں ڈوب گئیں۔ یہ فلمیں شامی فوج اور حزب اختلاف کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر بنائی گئی تھیں۔

2012ء میں علاء اپنی گرل فرینڈ ہمرین کے ساتھ پہلے لبنان آئے اور پھر وہاں سے ترکی۔ ’’وہاں ہمارے لیے کچھ نہیں تھا ہم وہاں غیر قانونی طور پر مقیم تھے‘‘۔ اس دوران ہمرین کے والدین جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ علاء اور ہمرین بھی تقریباً دو سال سے جرمنی میں ہیں اور سیاسی پناہ کی ان کی درخواست بھی منظور ہو چکی ہے۔ وہ بہت پرامید ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں اب اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فکر نہیں۔ اس دوران ہمرین اور وہ شادی کے بندھن میں بھی بندھ چکے ہیں۔

Syrien Damaskus Ausreise Passkontrolle
تصویر: DW/A. Alahdab

علاء آج کل ایک نئی فلم پر کام کر رہے ہیں، جس کا نام ہے’’ پیراڈائز جرمنی‘‘ یعنی جرمنی ایک جنت۔ اس فلم میں انہوں نے جرمنی میں مقیم فلسطینیوں اور شامی باشندوں سے ان کی توقعات اور ان کے منفی تجربات کے بارے میں سوال کیے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے جرمنی کے پیچیدہ افسر شاہی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

علاء کے مطابق جرمنی میں ایک نئے آغاز کے باوجود وہ فلسطین میں اپنے آبائی گھر کو ایک مرتبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ فلمیں بنانا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس سفر میں تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ شام واپس جانے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں رہے کیونکہ وہاں ایک پرامن زندگی گزارنے کے مواقع موجود نہیں ہیں اور اس طرح وہ اپنی اس نئی ’جنت‘ سے بہت دور چلے جائیں گے۔