1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہندو بھگوان کے جلوس کی اجازت کے لیے ایک مسلمان کی فریاد

جاوید اختر، نئی دہلی
22 جون 2020

بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے کووڈ 19کی وجہ سے مشرقی ریاست اوڈیشہ میں ہندووں کے بھگوان جگن ناتھ کی سالانہ یاترا پر روک لگانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دینے والوں میں ایک مسلمان بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/3e9Tj
Bangladesch Manipuri beim Rath Yatra Festival
تصویر: DW/M. Mostafigur Rahman

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بعض شرائط کے ساتھ یہ کہتے ہوئے یاترا کی اجازت دے دی کہ مندر کمیٹی، مرکزی اور ریاستی حکومتیں  باہمی تعاون کے ساتھ اور صحت کے حوالے سے تمام حفاظتی اقدامات کا خیال رکھتے ہوئے یاترا نکال سکتی ہیں۔ یاترامنگل 23 جون کو نکالی جائے گی۔

 سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے گذشتہ جمعرات کو یاترا کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر ہم نے یاترا کی اجازت دی تو بھگوان جگن ناتھ ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ وبا کے دور میں اس طرح کے بھیڑ بھاڑ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔" 

مندر کی منتظمہ کمیٹی کے علاوہ مرکز اور اوڈیشہ کی ریاستی حکومتوں سمیت افرا اور تنظیموں کی طرف سے عدالت سے اپنے حکم پرنظر ثانی کے لیے2  درخواستیں داخل کی گئی تھیں۔ حکومت کی طرف سے سولسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے کہا کہ ”یہ کروڑوں لوگوں کی عقیدت کا معاملہ ہے اور اگر بھگوان جگن ناتھ کا رتھ مندر سے کل 23 جون کو باہر نہیں آیا تو مذہبی روایت کے مطابق اگلے بارہ برس تک باہر نہیں آسکے گا۔"

 حکومت نے سپریم کورٹ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ صرف ایسے افراد کو جو کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہیں اور مندر کے پجاری ہی اس رسم میں حصہ لیں گے، جبکہ عقیدت مند ٹیلی ویزن پر اس یاترا کی لائیو ٹیلی کاسٹ کے ذریعہ 'آشیرواد‘ حاصل کرلیں گے۔

بھگوان جگن ناتھ کی اصل رتھ یاترا تو پوری میں نکالی جاتی ہے جس میں دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں، لیکن علامتی رتھ یاترائیں اوڈیشہ کے دیگر شہروں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں اور بیرون ملک بھی نکالی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے تاہم صرف پوری میں رتھ یاترا نکالنے کی مشروط اجازت دی ہے۔

Narendra Modi Fashion Hut
نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی کے طورپر2009 میں احمدآباد میں رتھ یاترا کے دورانتصویر: Getty Images/AFP/S. Panthaky

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن 21 افراد اور تنظیموں نے جگن ناتھ یاترا کے متعلق سپریم کورٹ سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی تھی ان میں 19سالہ مسلمان طالب علم آفتاب حسین بھی شامل تھے۔ وہ اوڈیشہ کے نیا گڑھ ضلع میں بی اے اکنومکس کے طالب علم ہیں۔

آفتاب کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی بھگوان جگن ناتھ سے کافی متاثر ہیں اور ان کے دادا مطلب خان بھی جگن ناتھ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ آفتاب نے اپنی عرضی میں کہا تھاکہ ان کے دادا نے 1960میں ایٹا ماٹی میں تری ناتھ (ہندووں کے تین بھگوان برہما، وشنو اور مہیش) کا مندر بنوایا تھا۔آفتاب حسین کا مزید کہنا تھا، ”میں مندر تو کبھی نہیں جاسکا کیوں کہ وہاں غیر ہندووں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے لیکن ان کے والدین اور بھائیوں نے جگن ناتھ کی مورتی کی پوجا کرنے پر ان کی کبھی مخالفت نہیں کی۔"

اوڈیشہ میں سوشل میڈیا میں آفتاب حسین کی تعریف کرتے ہوئے انہیں دوسرا سال بیگ قرار دیا جارہا ہے۔

سال بیگ کون تھے؟

سال بیگ ایک مسلمان اور مغل صوبیدار  لال بیگ کے بیٹے تھے۔ سال بیگ پر تحقیقی کام کرنے والے نیل منی مشرا کے مطابق لال بیگ نے ایک بیو ہ ہندو برہمن خاتون کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اس سے شادی کرلی تھی جس سے سال بیگ پیدا ہوئے۔ وہ بھگوان جگن ناتھ کے بڑے عقیدت مند تھے۔ ان کا زمانہ سترہویں صدی کا نصف کا بتایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے والد کے ساتھ وہ ایک فوجی مہم میں شامل تھے جہاں وہ زخمی ہوگئے۔ جب وہ زندگی کی امیدیں کھونے لگے تو ان کی والدہ نے بھگوان کرشن کا نام لینے کا مشورہ دیا، جس سے وہ صحت یاب ہوگئے۔

نیل منی مشرا کے مطابق چونکہ بھگوان جگن ناتھ کو بھگوان کرشن کا روپ سمجھا جاتا ہے اس لیے سال بیگ ان کی زیارت کے لیے پوری میں جگن ناتھ مندر پہنچے لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے پجاریوں نے انہیں مندرمیں داخل ہونے نہیں دیا۔ اس کے بعد وہ بھگوان کرشنا کی جائے پیدائش برندا بن چلے گئے اور سادھووں سنتوں کے ساتھ کرشن بھکتی کا درس لیا۔ پوری واپس لوٹنے کے بعدانہوں نے بھگوان جگن ناتھ کی تعریف و توصیف میں نظمیں لکھیں۔

سال بیگ کو اوڈیہ بھکتی شاعری میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس لیے جب بھگوان جگن ناتھ کا رتھ مندر سے نکل کر تین کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے تو سال بیگ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اسے تھوڑی دیر کے لیے ان کی قبر پر بھی روکا جاتا ہے۔