1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم جنس شادیوں کے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

جاوید اختر، نئی دہلی
17 اکتوبر 2023

عدالت نے ہم جنس شادیوں کے متعلق آج ایک اہم فیصلے میں کہا کہ اسے قانونی طور پر جائز قرار دینا اس کا نہیں بلکہ پارلیمان کا کام ہے۔ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی اور مسلم تنظیموں نے ہم جنس شادیوں کی مخالفت کی تھی۔

https://p.dw.com/p/4XcMe
وزیر اعظم مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہم جنس شادیوں کو قانونی قرار دینے کی مخالفت کی تھی
وزیر اعظم مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہم جنس شادیوں کو قانونی قرار دینے کی مخالفت کی تھیتصویر: Debsuddha Banerjee/ZUMAPRESS/picture alliance

 پانچ رکنی آئینی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے تاہم یہ بھی کہا کہ جو ازدواجی حقوق ہیٹرو سیکسوول (جنس مخالف) جوڑوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی ملنے چاہیئں ورنہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ مرکزی اور تمام ریاستی حکومتوں کو اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہم جنس افراد اور خواجہ سراوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی تفریق نہ ہو۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

 عدالت نے کیا کہا؟

ہم جنسی کو قانونی طور پر جائز قرار دینے کے بعد سے ہی بھارت میں ہم جنس شادیوں کو بھی قانونی جواز فراہم کرنے کی مہم زورو شور سے جاری  ہے۔ لیکن ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ متعدد ہندو اور مسلم مذہبی تنظیمیں اس کے خلاف ہیں۔ اس معاملے پر اس سال اپریل اور مئی میں فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے، جن پر سپریم کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سنایا۔

بھارت میں ہم جنس شادی کا معاملہ ایک بڑا موضوع

سپریم کورٹ نے سن 2018 میں ہم جنس سیکس کو غیر قانونی قرار دینے والے نوآبادیاتی دور کے قانون کو ختم کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہم جنس شادیوں کو قانونی جواز فراہم نہیں کرسکتا اور اس سلسلے میں قانون سازی پارلیمان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

چیف جسٹس چندر چوڑ کا کہنا تھا کہ "اس بات پر ایک حد تک اتفاق اور عدم اتفاق ہے کہ ہم ہم جنس شادیوں کے حوالے سے کہاں تک جاسکتے ہیں۔"

جسٹس چندر چوڑ کے ساتھ دو دیگر ججوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عدالت ہم جنس شادیوں کو قانونی جواز فراہم نہیں کرسکتی۔

اس وقت ایشیا میں صرف تائیوان اور نیپال ایسے دو ممالک ہیں جہاں ہم جنس شادیوں کی اجازت ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہم جنس شادیوں کو قانونی جواز فراہم نہیں کرسکتا اور اس سلسلے میں قانون سازی پارلیمان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے
سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہم جنس شادیوں کو قانونی جواز فراہم نہیں کرسکتا اور اس سلسلے میں قانون سازی پارلیمان کے دائرہ اختیار میں آتا ہےتصویر: Imago/Hindustan Times/S. Mehta

 ہم جنس کے حقوق کی حفاظت کی جائے

چیف جسٹس نے کہا کہ شادی کے حق میں ترمیم کرنے کا اختیار قانون سازیہ کے پاس ہے لیکن ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگوں کو اپنا "پارٹنر" منتخب کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا حق ہے اور حکومت کو انہیں حاصل حقوق کی حفاظت کرنی چاہئے تاکہ یہ 'جوڑے' کسی پریشانی کے بغیر ساتھ رہ سکیں۔

جسٹس چندر چوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم جنس پرستی صرف شہری اشرافیہ یا ایلیٹ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کا بھی معاملہ ہے جو ملک کے الگ الگ شہروں اور گاوں میں رہتے ہیں۔

بھارت میں ہم جنس پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان

چیف جسٹس کا کہنا تھا "ایک انگلش بولنے اور کارپوریٹ آفس میں کام کرنے والا بھی ہم جنس ہو سکتا ہے اور گھریلو کام کاج کرنے والی خاتون بھی ہم جنس ہو سکتی ہے۔"

بھارت میں کیا اب ہم جنس پرستوں کی زندگی آسان ہو گی؟

بی جے پی نے کیوں مخالفت کی

وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہم جنس شادیوں کو قانونی قرار دینے والی درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ ایک "شہری اشرافیہ" خیال ہے اور اس مسئلے پر بحث کرنے نیز قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ ہی مناسب پلیٹ فارم ہے۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ بھارتی سماج میں میاں بیوی اور بچے پر مشتمل خاندان کو ہی خاندان سمجھا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی سماج میں اب بھی روایتی قدروں کا غلبہ ہے البتہ ایل جی بی ی کیو کے حقوق بھی دھیرے دھیرے تسلیم کیے جارہے ہیں۔

ہم جنس پرستی پر بھارتی فلم، فوج نے عکس بندی کی اجازت نہیں دی

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا جو ہم جنس جوڑوں کو درپیش عملی مسائل، مثلا ً راشن کارڈ کے حصول، پنشن، گریچویٹی اور وراثت کے مسائل کو حل کرنے کے متعلق اپنی تجاویز دے گی۔