1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں واپس پاکستان جانا ہے، یونان میں محصور پاکستانی مہاجرین

عاطف بلوچ ایتھنز
15 جنوری 2018

انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے یورپ پہنچنے والے درجنوں پاکستانی مہاجرین اور تارکین وطن واپس پاکستان جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت انہیں خصوصی مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2qrUf
Griechenland Flüchtlingscamp Moria Symbolbild
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis

پاکستانی شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا علی گزشتہ برس ہی یونان پہنچا تھا۔ اس نوجوان نے یونان پہنچنے کی خاطر وہی خطرناک راستہ استعمال کیا تھا، جو پاکستانی تارکین وطن میں کافی مقبول ہے، یعنی ایران، ترکی اور پھر یونان۔ علی نے انسانوں کے اسمگلروں کو چھ لاکھ پاکستانی روپے دیے تھے، جنہوں نے اسے لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پہنچا دیا تھا۔ آج کل وہ یونانی دارالحکومت ایتھنز میں مقیم ہے اور واپس پاکستان جانے کے لیے بے قرار بھی۔

ایتھنز: نو عمر پاکستانی جسم فروش، حقیقت یا افسانہ؟

یونان سے اٹلی جانے کی کوشش میں درجنوں تارکین وطن پکڑے گئے

مہاجرت: یونان سے نکلنے کی غیرقانونی کوشش

پاکستانی تارک وطن، جسے یورپ نے دوسری مرتبہ بھی مایوس کیا

یونانی دارالحکومت ایتھنز میں واقع بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے مرکزی دفتر میں علی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو کچھ سوچ کر یورپ آیا تھا، وہ نہیں ہو سکا۔ علی کے بقول وہ یونان میں مہاجرین کی ابتر صورتحال دیکھ کر ششدر رہ گیا اور اسے اس ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ اسی لیے اس نے واپس پاکستان جانے کی ٹھانی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں علی نے مزید کہا کہ وہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے یورپ آیا تھا لیکن اس نے جو خواب دیکھے تھے، وہ صرف سراب ہی نکلے۔ اب اسے اپنے اس فیصلے پر شرمندگی ہے۔

آئی او ایم علی کے سفری اخراجات اٹھا رہا ہے تاکہ اسے واپس پاکستان بھیجا جا سکے۔ علی کے مطابق اس کی طبعیت بھی ٹھیک نہیں رہتی اور وہ زیادہ دیر تک ان نامساعد حالات میں زندہ رہنے کی سکت نہیں رکھتا۔ آئی او ایم ایسے افراد کو خصوصی مدد فراہم کر رہا ہے، جو رضا کارانہ طور پر واپس اپنے اپنے ممالک جانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر انہیں ٹکٹ اور تین سو تا پانچ سو یورو کی نقد رقوم بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

ایتھنز میں متعدد ایسے پاکستانی مہاجرین ہیں، جو آئی او ایم کے اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جو یونان پہنچنے کے بعد اتنے زیادہ بد دل ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے خرچے پر ہی واپس جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان میں گجرات سے تعلق رکھنے والے عدیل بھی شامل ہیں۔

ایتھنز میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یونان میں کوئی مستقبل نہیں، اس لیے وہ اپنے ہی پیسے خرچ کرتے ہوئے واپس پاکستان جا رہے ہیں۔

عدیل کے مطابق وہ پیسہ کمانے یورپ آئے تھے لیکن یہاں حالات ایسے نہیں کہ وہ کوئی کام کر سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں کو خطیر رقوم دے کر یونان پہنچے لیکن یہاں ہر وقت ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ پولیس انہیں پکڑ لے گی۔

مہاجرین کے لیے بنائے گئے شیلٹر ہاؤسز کا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں بہت ہی بری صورتحال ہے، ’’نہ خوراک ہے اور نہ ہی طبی سہولیات۔ بہت برا حال ہے۔‘‘ عدیل کہتے ہیں کہ واپس وطن جا کر کم از کم وہ آزادی سے سانس تو لے سکیں گے۔ عدیل کے بقول پاکستان میں سلامتی اور روزگار کے مسائل بہت زیادہ ہیں، جن کے باعث نوجوان یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق، ’’جیسا بھی ہو، اپنا وطن آخر اپنا ہی ہوتا ہے۔‘‘

مہاجرین کا دل بہلاتا پاکستانی تارک وطن