1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہمیں اپنا گھر جہنم سے کم نہیں لگتا‘

19 جون 2015

افغانستان میں چند ماہ قبل ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے قرآن کی بے حُرمتی کے جھوٹے الزام کے تحت پُر تشدد طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دی جانے والی ایک خاتون کے گھر والے اب بھی صدمے اور خوف کے سبب اپنے گھر میں بند ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Fjj6
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossaini

قرآن کی مبینہ ’بے حرمتی‘ کے الزام کے تحت 19 مارچ کو مار مار کر ہلاک کردی جانے والی 27 سالہ فرخُندہ ملک زادہ کی لاش کو جنونی مشتعل افراد نے جلا دیا تھا۔ فرخندہ کے 72 سالہ والد محمد نادر ملک زادہ نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو حال ہی میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’ہم ایک معمول کی زندگی نہیں گزار سکتے، نہ تو ہمارے بچے اسکول کالج جا رہے ہیں نہ ہی ہم شاپنگ کے لیے باہر جا سکتے ہیں۔ ہم شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ ہمیں اپنا گھر جہنم سے کم نہیں لگتا۔‘‘

فرخندہ اپنے ساتھ اپنے پورے گھرانے کا چین سکون، سب کچھ لے گئی ہے۔ اس کے گھر والوں کی زندگیاں مکمل جمود کا شکار ہو چُکی ہیں۔ انہیں جو صدمہ پہنچا ہے وہ تو اپنی جگہ، تاہم اب یہ صورتحال شدید خوف و ہراس کا باعث بھی بن چکی ہے۔ فرخندہ کے والد اور دیگر پسماندگان کی مایوسی کی انتہا اُس وقت دیکھنے کو آئی، جب افغانستان کی ایک عدالت نے فرخندہ کے سفاکانہ قتل کے مجرم قرار دیے جانے والے 49 افراد میں سے 37 کی سزا کے خلاف اپیل کو زیر التواء قرار دیتے ہوئے اُنہیں ضمانت پر رہا کردیا۔ فرخندہ کی فیملی کے لیے یہ سزائیں بہت کم ہیں۔

Familie der von Lynchmob getöteten Frau lebt in Angst
فرخُندہ کی فیملی خوف زدہ ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossaini

شادو شمشیرا مقبرے کے پاس ایک پھیری والے کی طرف سے فرخندہ پر قرآن کی ’بے حُرمتی‘ کا جھوٹے الزام لگائے جانے کے نتیجے میں ایک مشتعل ہجوم جب فرخند پر حملہ آور ہوا تھا تو پولیس یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ فرخندہ کو گھونسوں اور لاتوں کے علاوہ لکڑی کے تختوں سے مار مار کر نڈھال کر دیا گیا اور اُس کے بعد اُسے ایک چھت سے نیچے پھینک کر اُس پر گاڑی دوڑائی گئی اور اُسے ایک سیمنٹ کے بلاک سے کُچل دیا گیا۔ ظلم کی اس انتہا کے بعد فرخندہ ملک زادہ کی لاش کو کابل کے دریا کے کنارے نذر آتش کر دیا گیا۔ اس پورے عمل کے دوران پولیس اہلکار وہاں موجود تھے اور اُنہوں نے فرخندہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

اس تمام منظر کی فوٹیج موبائل فونز کے ذریعے منظر عام پر آئی، جس کے بعد افغانستان بھر اور متعدد غیر ملکوں میں اس واقعے کی سخت مذمت کی گئی۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہروں کا انعقاد ہوا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اُٹھا رکھے تھے، جن پر فرخندہ کا خون آلود چہرہ دیکھا جا سکتا تھا۔ فرخندہ کے چہلم والے دن انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر نے اُس کی یاد زندہ رکھنے کی خاطر شادو شمشیرا مقبرے کے سامنے احتجاج اور مشعل بردار جلوس کا اہتمام بھی کیا۔

Familie der von Lynchmob getöteten Frau lebt in Angst
فرخندہ کے والد محمد ناصر ملک زادہتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossaini

فرخندہ کی سات بہنوں اور دو بھائیوں سیمت والدین اور اُن کے والدین سب ہی کی زندگیاں فرخندہ کے بعد گھر تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان سب کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے افراد نے بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے، جو فرخندہ کے نام کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں پولیس اور فرخندہ کے قاتلوں کے گروپ کی طرف سے خطرات لاحق ہیں، اس لیے بھی یہ سب گھر میں بند رہنے لگے ہیں۔ نہ تو کوئی کام پر جا رہا ہے نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول کالج یا یونیورسٹی وغیرہ۔

فرخندہ کا 37 سالہ بھائی نجیب اللہ انتہائی فکر مند ہے، وہ کہتا ہے، ’’اگر ہمارے بچے اسکول، کالج یا یونیورسٹی نہیں جائیں گے تو تعلیم کیسے حاصل کریں گے؟ کیا یہ ناخواندہ رہ جائیں؟‘‘

فرخندہ کی ماں بی بی ہاجرہ کا کہنا ہے کہ وہ سب اپنی زندگیوں کو مسلسل خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم انصاف چاہتے ہیں۔ ہم کسی محفوظ مقام میں منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس نہ تو اتنی طاقت ہے نہ ہی پیسے کہ ہم کچھ کر سکیں۔ ‘‘

Afghanistan Protest und Demonstration Gedenken an Farkhunda
فرخندہ کے سفاکانہ قتل کی مذمت کرنے والے مظاہرینتصویر: DW/H. Sirat

فرخندہ کے قتل کے مقدمے کی کارروائی کے بعد کابل کی عدالت نے چار مجرمان کو موت کی سزا سنائی، 18 پر لگے الزامات کو ناکافی شواہد کی بنا پر معطل کر دیا گیا جبکہ 8 دیگر کو سولہ سولہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتنے کے الزام میں جن 19 پولیس اہلکاروں پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا، ان میں سے بھی 8 کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا گیا اور 11 کو ایک ایک سال کی قید ہوئی۔