1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہتھیار کورونا وائرس کے خلاف مدد نہیں کرتے، تبصرہ

27 اپریل 2020

کورونا وائرس بحران کی اب تک کی صورتحال سکیورٹی پالیسی میں سنگین کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کیونکہ فوجی طور پر اس وائرس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ میودراج زورش کا کہنا ہےکہ دفاع پر از سرنو غور کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3bTJh
Flugzeugträger Charles de Gaulle | Coroanvirus
تصویر: picture alliance/dpa/Nice Matin/L. Martinat

سکیورٹی کو یقینی بنانا ریاست کا سب سے اہم کام ہے۔ کیونکہ صرف اسی طریقے سے شہری وقار اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں اور معاشی خوشحالی ممکن ہے۔ یہ کہنا آسان ہے۔ لیکن حقیقت میں کورونا وائرس نے ہر ایک کو دکھا دیا ہے کہ وہ کس قدر بڑا خطرہ ہے۔ سب سے اہم یہ کہ کيا کوئی ملک کورونا کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار تھا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اس بحران کی پیش گوئی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن 2003ء سےسارس، سوائن فلو، میرس، ایبولا یا زیکا وائرس جیسی متعدی بیماریاں موجود تھيں۔ لہٰذا حکومتوں کے پاس وبائی امراض کی تیاری کے ليے کافی وقت اور قابل دید وجوہات موجود تھيں۔ کم از کم شمالی نصف کرہ ارض کی دولت مند ریاستوں کے ليے یہ کہنا حق بجانب ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر کی ترجیحات غلط تھیں۔ یہ وبائی امراض سے نمٹنے کی بجائے ہتھیاروں پر کھربوں کی سرمایہ کاری جاری رکھے ہیں۔

طاقتور فوج اور صحت کے ناقص نظام

لیکن ٹینک اور لڑاکا طیارے وبائی بیماری سے بچنے میں مدد نہیں کرتے ہیں۔ تنہا طاقتور فوج سکیورٹی فراہم نہیں کرتی بلکہ بہت زیادہ فوجی اخراجات جدید صحت کے نظام، ايک فعال انفراسٹرکچر اور ماحولیاتی تحفظ کے ليے درکار رقم غصب کر ليتے ہيں۔ ہر قوم کے اسلحے کے اخراجات اس کے محنت کشوں کے پسینے، اس کے سائنسدانوں کی ذہانت کا زياں اور اس کےبچوں کی امیدوں کا گلہ گھونٹ ديتے ہيں۔ یہ 1953 ء ميں امریکی صدر آئزن ہاؤر نے سرد جنگ کے وسط میں کہا تھا۔

Soric Miodrag Kommentarbild App
میودراج زورش

گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکا نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہوہ انتہاپسند دہشت گردوں کا مقابلہ کرے گا، جہاں وہ موجود تھے اور وہاں بھی جہاں وہ موجودنہیں تھے۔ تاہم خدا کے نام پر لڑنے والے جنگجوؤں کے حملوں کے نتيجے ميں ہونے والی ہلاکتوںکی تعداد امریکا میں وبائی امراض کے متاثرین کی تعداد کے مقابلے نسبتا بہت چھوٹی نظر آتی ہے۔

کسی غلط فہمی سے بچنے کے ليے تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ بلاشبہ ہر ملک کو اپنے شہریوں کوحملوں سے بچانے کے ليے ایک فوج کی ضرورت ہے۔ امریکا اپنے بحری بیڑے کے ذریعے دنیا بھر میںاہم تجارتی راستوں کو بھی محفوظ کرتا ہے۔ پھر بھی واشنگٹن نے دوسرے دارالحکومتوں کی طرح اصلی خطرے کو غلط سمجھا ہے۔ وبائی امراض ، آب و ہوا کی تبدیلی یا ماحولیاتی تباہی کی سنگينی کو کم اجاگر کيا جارہا ہے۔ وبائی مرض کورونا کے مزید خطرات کے سائے موجود ہیں: بھوک اور بغاوت، خاص طور پر افریقہ اور ایشیاء کے کچھ حصوں میں۔

تنہائی اور تحفظ پسندی مدد نہیں کرتی

خود کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی پرانی خواہش امریکا میں ایک بار پھر نظر آ رہی ہے۔آئیں ہم دنیا کے بحرانوں اور جنگوں سے دور رہیں! لیکن تنہائی کام نہیں آتی ہے۔ نہ تو وائرس اور نہ ہی آب و ہوا کی تبدیلی سرحدوں پر رکتی ہے۔ پروٹیکشن ازم بھی طویل مدت بعد نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے برآمدی صنعت کو نقصان ہوتا ہے، معاشی نمو سست ہو جاتی ہے اور لوگوں کو غربت کی طرف لے جاتی ہے۔ کورونا وائرس کے نتائج خود وائرس سے زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔

وبائی مرض نے دکھایا ہے کہ دنیا کتنی چھوٹی ہو گئی ہے۔ دور دراز کے ملک میں کہیں کچھ ہوتاہے تو وہ تمام براعظموں کے تمام شہریوں کو تھوڑے ہی عرصے میں متاثر کر سکتا ہے۔ عالمگیریت کو نہ تو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی پلٹا جا سکتا ہے۔ عالمی برادری کی طرف سے اجتماعی طور پرکام نہ کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ اس کام کے ليے امیر ممالک، خاص طور پر امریکا کو قائدانہ کردار کا مظاہرہ کرنا چاہيے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہيے۔ ہماری دنیا صرف تب ہی محفوظ ہو سکتی ہے جب مشترکہ حکمت عملی کامیاب ہو۔

ک م / ا ا (میودراج زورش)