1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گيس کی تلاش کے حوالے سے ترکی اور یونان کے درمیان پھر کشیدگی

11 اگست 2020

یونان نے مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کی جانب سے توانائی کی تلاشی مہم کے دوبارہ آغاز کے بعد فوجی میٹنگ طلب کی ہے اور کہا ہے کہ ترکی کے اقدام سے خطے کے امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3glph
Forschungsschiff Oruc Reis Türkei
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Yozoglu

ترکی نے مشرقی بحیرہ روم میں یونان کے دورافتادہ علاقے  کاسٹیلورائزو جزائز کے آس پاس گیس اور تیل کی تلاشی مہم پھر سے شروع کی ہے، جس پر یونان نے نیٹو کے اتحادی ملک ترکی پر مشرقی بحیرہ روم میں امن کو خطرے میں ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یونان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی نے گیس کی تلاش کے لیے جو تحقیقی جہاز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سے نئی سطح پر سنگین کشیدگی پیدا ہورہی ہے اور یہ ترکی  کے ''عدم استحکام''  کرنے کے رول کو بے نقاب کر تا ہے۔

یونان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ''ان کا ملک اپنی سالمیت اور خود مختاری کے حقوق کا دفاع کرے گا۔'' یونان کے وزیر اعظم کائریاکوس مٹسوٹاکیس کے دفتر کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اس سلسلے میں یورپی یونین کونسل کے صدر شال میشل اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹول ٹینبرگ سے بات کی ہے۔

نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹول ٹینبرگ نے اس سلسلے میں اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ہر حال میں بین الاقوامی قوانین کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ''صورتحال کو اتحادی یکجہتی کے جذبے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق حل کرنا ہوگا۔''

جرمنی میں وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے ایتھنز اور انقرہ کو اس بارے میں بات چیت کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ''اس موقع پر مزید توانائی کی تلاش جاری رکھنا یقیناً ایک غلط اشارہ ہوگا۔''

دوسری جانب ترک صدر طیب اردوان نے بھی اس بارے میں مذاکرات پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اپنے کابینی رفقاء کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ، بحیرہ روم کے تمام ممالک کو ایک ساتھ آنے کی ضرورت ہے اور ایسا فارمولہ تلاش کریں جس سے سبھی کے حقوق کو تحفظ مل سکے۔ ہم دوسرے ممالک کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ترکی کو نظر انداز کر کے ہمیں ہمارے ساحلوں تک ہی محصور کر دیں۔''

Türkei | seismisches Forschungsschiff | Öl-Gasbohrungen |  MTA Oruc Reis
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/I. Yozoglu

صدر اردوان نے چند روز قبل ہی کہا تھا کہ وہ یونان اور یورپی یونین کے موجودہ جرمن صدر کے ساتھ گذشتہ ماہ میں ہونے والی تیز رفتار بات چیت کے نتائج کا انتظار کرتے ہوئے تھک چکے ہیں۔ ان کے اس بیان کے تیسرے روز یعنی پیر کو ہی ترکی نے گیس و توانائی کی تلاش کے لیے اپنے سمندری جہاز اوریوک ریز کو اس علاقے میں مہم پردوبارہ بھیج دیا۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس سلسلے میں ترک صدر سے یونانی حکومت سے بات چیت کے لیے کہا تھا جس کے بعد اردوان نے گزشتہ ماہ بات چیت کے لیے وقت دینے کی غرض سے گیس کی تلاشی مہم کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن گزشتہ ہفتے جب مصر اور یونان نے خطے میں ایک خاص معاشی معاہدے کا اعلان کیا تو ترکی کو اچھا نہیں لگا کیونکہ پڑوسی لبیا میں مصر ترکی کا حریف ہے۔ اس اعلان کے بعد ہی ترکی کی وزارت خارجہ نے سمندری علاقوں سے متعلق تمام خودساختہ معاہدوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔

پیر کے روز ترکی کی وزارت خارجہ سے وابستہ حامی عکسوئی نے بھی ترکی کے سمندری جہاز کی علاقے میں تلاشی مہم کو درست ٹھہراتے ہوئے خطے میں کشیدگی کے لیے یونان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔   

ترکی کا ایک بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم کے بعض علاقوں میں قدرتی گیس اور تیل کی دریافت میں لگا ہے جس پر یونان اور قبرص یہ کہہ کر اعتراض کرتے ہیں کہ ترکی ان کے سمندری پانیوں میں ایسا کر کے ان کی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن انقرہ کا یونان پر یہ الزام ہے کہ وہ بحیرہ روم میں معدنیات تک اس کی معقول رسائی کو روکنا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یونانی جزائر کا شمار خصوصی معاشی خطوں میں نہیں کیا جانا چاہیے۔

گزشتہ ماہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اس حوالے سے ترکی کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' یوروپی یونین کے کسی بھی رکن ملک کے سمندری علاقوں کی خلاف ورزی یا پھر اس بارے میں دھمکی قابل قبول نہیں ہے۔''

یورپی یونین نے بھی ترکی سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری رکھنے پر زور دیا تھا۔  لیکن ترکی کا کہنا ہے کہ توانائی کے تعلق سے علاقے میں اس کی سرگرمیاں اس کی اپنی سمندری حدود میں ہیں اور قبرص یا پھر یونان کے سمندری علاقوں میں اس نے کوئی دراندازی نہیں کی ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں جن علاقوں پر قبرص یا پھر یونان کا دعوی ہے وہ در اصل ترکی کے علاقے ہیں اور ان پانیوں میں ترکی کی سرگرمیاں اس کے اپنے حقوق کے دائرے میں ہیں۔

ص ز / ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

’ترکی یورپی یونین معاہدہ‘ خطرے میں، مہاجرین کہاں جائیں گے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں