1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گولان کے دروزی شام کے بارے میں منقسم

Kishwar Mustafa1 اپریل 2013

ایک عرصے سے شامی حکومت کی وفادار دروزی برادری ملک کی موجودہ صورتحال کے سبب منقسم نظر آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/187hn
تصویر: picture alliance/dpa

شام کی خانہ جنگی نے جہاں شامی باغیوں کو سیاسی اور سماجی ترقی کے اعتبار سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے وہاں اس عرب ملک میں پائے جانے والے مختلف نسلی اور مذہبی گروپوں میں بھی پھوٹ پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ گولان کے علاقے کے ایک مذہبی فرقے سے تعلق رکھنے والا گروپ ’دروز‘ بھی تقسیم کا شکار ہو گیا ہے۔ ایک عرصے سے شامی حکومت کی وفادار دروزی برادری ملک کی موجودہ صورتحال کے سبب منقسم نظر آ رہی ہے۔

دروزی باشندے گولان کے شہری ہیں اور اس علاقے پر 46 سالہ اسرائیلی قبضے کے دوران یہ دمشق حکومت کے سخت حامی اور وفادار رہے ہیں۔ یہ برادری نہایت مربوط اور متحد ہوا کرتی تھی تاہم شام کے بحران اور خانہ جنگی نے اس کے اتحاد پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ گولان سے تعلق رکھنے والے 20 ہزار دروزی اب شامی حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری پر خود سوال اٹھا رہے ہیں۔

Symbolbild Syrien ethnische Minderheiten
شامی نسلی اقلیتیںتصویر: AP

گولان پہاڑیوں کے شمالی حصے میں واقع گاؤں ’مجدل شمس‘ 1967 ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیلی قبضے میں ہے۔ دروزی برادری میں صدر بشار الاسد کی فوج اور باغیوں کے مابین ہونے والی جنگ کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی ہمدردی صدر اسد کے ساتھ ہے جبکہ چند دروزی باشندے منحرف ہو گئے ہیں۔ دروزی دمشق حکومت یا باغیوں کے ساتھ اپنی وفاداری کے بارے میں کھل کر اظہار کرنے میں نہ صرف جھجک رہے ہیں بلکہ اس کا اظہار نام مخفی رکھنے کی شرط پر کر رہے ہیں۔

مجدل شمس ے تعلق رکھنے والا ایک بیس سالہ نوجوان نور اینجینئرنگ کا طالبعلم ہے۔ وہ کہتا ہے،’ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اختلاف رائے کے سبب ایک بھائی دوسرے بھائی سے بولنا چھوڑدیتا ہے‘۔

Explosion Autobombe in Damaskus Syrien
تصویر: picture alliance/dpa

ان دنوں دروزی برادری میں ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے، آپ کس کے ساتھ ہیں؟ اس کے سبب بہت سے لوگوں کے مابین دوستانہ تعلقات خراب ہو چُکے ہیں۔ ایک 30 سالہ دروزی کا خیال ہے کہ شامی باغیوں کی فورس ’فری سیریئن آرمی ‘ شامی فورس نہیں ہے بلکہ اُس کے بقول،’ یہ ایک پاکستانی، افغان اور امریکی فوج ہے جو جہاد یا مقدس جنگ لڑنا چاہتی ہے‘۔

ایک دروزی خاتون جنہوں نے اپنا اصل نام نہیں بتایا بلکہ فرضی نام ’اُم ظہیر‘ بتایا اپنی برادری کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں،’ شامی باغیوں کی صف میں بہت سے سُنی انتہا پسند باغی شامل ہیں۔ ان میں جہادی گروپ،’ النصرہ فرنٹ‘ کے عسکریت پسند بھی شامل ہیں‘۔ اُم ظہیر کے بقول،’ مجھے ڈر ہے کہ اگر شامی باغیوں کی جیت ہو گئی تو النصرہ اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں یہاں آ جائیں گی۔ ان انتہا پسندوں کی نظر میں ہر وہ شخص جس کا عقیدہ اُن سے مختلف ہے کافر ہے اور اُسے قتل کر دیا جانا چاہیے۔

گولان کے علاقے میں بسنے والے دروزی چھوٹے موٹے کام کرنے والے عام لوگ ہیں۔ انہیں اپنے روزگار اور امن و سلامتی دونوں ہی کی پرواہ ہے۔ ایک جوتا فروش کہتا ہے،’ میں اسد کا حامی ہوں اور انتخابات چاہتا ہوں۔ اگر الیکشن منعقد ہوئے تو لوگ بشار الاسد ہی کو ووٹ دیں گے۔ تاہم مجدل شمس کے چند شہری باغیوں کے حق میں اپنی حمایت کا کُھل کر اظہار کرنے پر آمادہ ہیں۔

Km/ai(AFP)