گلیشیئرز کا پگھلاؤ، بھارتی حکومت اور ماہرین کے درمیان اختلا ف
2 دسمبر 2009اس بارے میں بھارتی حکومت کا موقف ہےکہ ماحولیاتی تبدیلی کا برفانی تودوں ی پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ پگھل نہیں رہے ہیں۔ حالانکہ ماہرین کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہاں صورت حال بڑی تشویشناک ہے اور ہمالیہ سے نکلنے والے دریاؤں کے سرچشمے خشک ہورہے ہیں۔
مشہور ماہر ماحولیات وندنا شیوا کہتی ہیں کہ ماحول اور موسم کی تبدیلی کے باعث ہمالیہ کے علاقوں میں سنگین مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی رپورٹ مقامی لوگوں کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ جس کے مطابق 70 فی صد پانی کے سوتے سوکھ گئے ہیں۔ 90 فیصد جنگلوں میں آگ لگی ہے نیز90 فیصد فصلیں قحط سالی کی وجہ سے برباد ہوئی ہیں۔ بارش وقت پر نہیں ہو رہی ہے۔ درجہ حرارت میں تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری رپورٹ میں صرف گلیشیئروں پر توجہ دی گئی ہے۔
’’سرکاری رپورٹ کی اخذ کردہ معلومات اور نتا ئج کے درمیان میں کافی فرق ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاچن گلیشیئرز دس سال میں دس میٹر پگھلے ہیں اور آئندہ دس سال میں اس کے 70فیصد سوتے خشک ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کی گنگوتری کا معاملہ ہے، جہاں 14میٹر برفانی سطح کم ہوئی ہے۔ یہی معاملہ بھاگیرت کھڑک اور زیموگلیشیئروں کا ہے۔‘‘
وندنا کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے 250 دیہاتوں کا بڑی باریکی سے مطالعہ کیا ہے اس میں مقامی باشندے بھی شامل تھے۔
’’ماحول کی تبدیلی سے کچھ درختوں اور پودوں میں پھول وقت سے پہلے نمودار ہورہے ہیں جبکہ کچھ درختوں میں پھل نہیں آرہے ہیں۔ یہاں پھلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔‘‘
تاہم بھارتی وزارت ماحولیات کی طرف سے جاری کردہ ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنسداں ہمالیہ کے گلیشیئروں کی پگھلنے کی جو شرح بتا رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے نیز اس سلسلہ کوہ میں واقع کوئی بھی گلشیئر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے نہیں پگھل رہا ہے۔
یہ اسٹڈی وزارتِ ماحولیات نے الموڑہ میں واقع GB Pant Institute of Himalayan Enviroment and Development کے اشتراک سے تیارکی تھی۔ اس کا عنوان ہے 'State-of-art Review of Glacial Studies, Galcial Retreat and Climate Change' اس میں کہا گیا ہے کہ ہمالیہ گلیشیئروں کا گزشتہ سو سالوں سے یہی روّیہ رہا ہے کہ ان میں سے بعض پگھلتے ہیں اور بعض نہیں۔ یہ رپورٹ جیالاجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل وی کے رینہ کے تحقیقاتی مطالعہ کی روشنی میں تیار کی گئی ہے۔ وفاقی وزیرماحولیات جے رام رمیش کہتے ہیں کہ وزارت کے لئے یہ بات ضروری نہیں کہ اس رپورٹ کے نتائج سے اتفاق کرے بلکہ اس کا مقصد ماحولیات سے متعلق اہم مسائل پر ایک علمی بحث کو جلا بخشنا ہے۔ ان کے مطابق یہ مطالعاتی کوشش ہمالیہ سے نکلنے والے دریاؤں کے سوتے سوکھنے کی صورت میں پانی کے بحران کا جائزہ لینے کی تھی۔ وہ ماہرین کی گلیشیئر کے بارے میں تشویش کو بےجاء قرار دیتے ہیں نیز ان بلندیوں پر واقع برفانی تودوں کے پگھلنے کے بارے میں بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں سے اتفاق نہیں کرتے۔
’’مغربی سائنسداں ہمالیہ کے گلیشیئروں کا موازنہ دنیا کے دوسروں گلیشیئروں سے کرتے ہیں۔حالانکہ ہمالیائی برفانی تودے انتہائی بلندی پرواقع ہیں جبکہ امریکہ کے گلیشیئر ہمالیہ سے بہت نچلی سطح پر ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ محکمہ کے پاس سوسال کا ریکارڈ موجود ہے اور ہر سال وہاں ماہرین کی ٹیمیں جاتی ہیں۔
’’20تا 25 گلیشیئروں کا مستقل جائزہ لیا جاتا ہے۔ جائزہ میں کوئی ایسی خطرناک یا تشویشناک بات سامنے نہیں آئی کہ برف بڑے پیمانے پر پگھل رہی ہے۔ سیاچن اور دیگر بڑے گلیشیئروں کی سطح میں پچھلے پچاس برسوں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔‘‘
تاہم ماہرین ان دلیلوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ Intergovernmental Panel of Climate Change کے معاون چیرمین راجندر پچوری نے الزام لگایا کہ بھارتی وزارت ماحولیات نے اس معاملہ میں متکبر انہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ہمالیہ کے گلیشیئر دنیا کے دیگر گلیشیئرز کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں جو 2035 تک یا اس سے پہلے صفحہ ہستی سے غائب ہوسکتے ہیں۔
ہمالیائی گلیشیئرز کی اہمیت اس وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ اس سے کئی اہم دریا نکلتے ہیں جو بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں جا گرتے ہیں۔ یہ جنوب اور مشرقی ایشیا کے بیشتر دریائوں کا منبع ہے۔ جہاں سے گنگا، سندھ اور میکانگ بہتے ہیں۔ غالبا اسی کے پیش نظر بھارت میں سلامتی کے نقطہ نظر سے ہائیڈرولوجی اور ماحولیات کے متعلق تمام حقائق اور معلومات عام نہیں کی جاتی ہیں۔ نیز گلشیئر کے بارے میں تحقیقات دفاعی مقاصد کے لئے کی جاتی ہیں۔ گلیشیئرز کے متعلق معلومات آفیشیل سکریٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کی فائلیں دفاع اور انٹیلی جنس کی فائلوں کی طرح خفیہ رکھا جاتاہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ گلشیئر حساس سرحدی علاقوں میں واقع ہیں اس لئے ان معلومات کو عام نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ آبی تنازعات کے باعث انہیں منظرِعام پر نہیں لاتی۔ بھار ت کا پاکستان کے ساتھ سندھ اور بنگلہ دیش کے ساتھ گنگا کے پانی کی تقسیم پر تنازع چلتا رہتا ہے۔ تاہم وندنا شیوا کہتی ہیں کہ یہ معلومات عام کی جانی چاہیے تاکہ عوام کو ماحولیات کے تحفظ کے لئے اکسایا جا سکے۔ ان کے مطابق ماحولیات کا تحفظ سرحدوں کے تحفظ سے زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ انسانی بقا سے وابستہ ہے۔
ایک دوسرے ماہر دیوندر شرما سرکاری رپورٹ کو ہمالیائی غلطی سے تعبیر کر تے ہیں۔ وزیر موصوف کو ہدف بناتے ہوئے وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا کوپین ہیگن کی کانفرنس میں بھارت یہی موقف اختیار کرےگا اور گلیشیئر کے پگھلاؤ کے بارے تمام رپورٹوں کو مسترد کردےگا؟
رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت : عاطف توقیر