1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستنیپال

کے پی شرما اولی نے نیپالی وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

جاوید اختر، نئی دہلی
15 جولائی 2024

کمیونسٹ رہنما کھڑگ پرساد شرما اولی نے نیپال کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ سابق وزیر اعظم پشپ کمل دہل کے پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ ہار جانے کے بعد اولی کو وزیر اعظم بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4iIE1
کھڑگ پرساد شرما اولی نے چوتھی مرتبہ نیپال کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا
کھڑگ پرساد شرما اولی نے چوتھی مرتبہ نیپال کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/Pacific Press/N. Maharjan

صدر رام چندر پوڈیل نے پیر پندرہ جولائی کو ایک سادہ لیکن باوقار تقریب میں اولی کو ان کے عہدے کا حلف دلایا۔ کے پی شرما اولی اس سے قبل سن 2015 میں 10 ماہ، سن 2018 میں 40 ماہ اور سن 2021 میں تین ماہ کے لیے نیپال کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔

نیپال: پراچند کے وزیراعظم بننے سے بھارت فکرمند

ان کے پیش رو اور سابق حکومتی اتحادی پشپ کمل دہل، جو پراچنڈ کے نام سے معروف ہیں، 18 ماہ تک اقتدار میں رہنے کے بعد جمعے کے روز پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ ہار گئے تھے۔ 72سالہ اولی کی پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال نے پرچنڈ کی حمایت واپس لے لی تھی۔

نیپالی عوام کا ملک میں جمہوریت کی جگہ بادشاہت کا مطالبہ

نیپال کے کرنسی نوٹ کے نئے ڈیزائن پر بھارت شدید ناراض

اولی متحدہ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی کی حمایت سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک اور جماعت نیپالی کانگریس کے ساتھ بھی اتحاد کیاہے۔

خیال رہے کہ نیپال میں آئندہ عام انتخابات سن 2027 میں ہونے والے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اولی کو وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دی ہے
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اولی کو وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دی ہےتصویر: picture alliance/dpa/Str

اولی کون ہیں؟

کے پی شرما اولی اپنے نام کے پہلے دو الفاظ "کے پی" سے معروف ہیں۔ انہیں تیز طرّار رہنما سمجھا جاتا ہے، جو قوم پرستی کی حمایت کرتے ہیں۔ دو مرتبہ کڈنی ٹرانسپلانٹ ہونے کے باوجود وہ سرگرم سیاست میں ہیں۔ اپنی پارٹی میں انہیں سپریم لیڈر سمجھا جاتا ہے۔

نیپال کے سیاسی تجزیہ نگار بینو صوبیدی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اولی نے عوام میں کافی ہوشیاری کے ساتھ اپنی امیج قائم کی ہے۔ ان کی ریلیوں میں "کے پی با (والد) ہم آپ سے پیا ر کرتے ہیں " کے بینر عام ہیں۔انہوں نے اپنی پسند کے مطابق پارٹی کی امیج تبدیل کردی ہے۔

بھگوان رام کی شہریت پر تنازعہ، بھارتی تھے یا نیپالی؟

بھارت اور نیپال کے مابین رام کے بعد اب گوتم بدھا پر تنازع

صوبیدی کے مطابق اقتدار میں ان کے حالیہ برسوں کے دوران ان کا ایک آمرانہ امیج بھی ابھر کر سامنے آیا۔ "وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو اپنے الفاظ کو حتمی سمجھتا ہے اور شاذ و نادر ہی تنقید یا تجاویز کو قبول کرتا ہے۔حتی کہ اپنی پارٹی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔"

صوبیدی کا کہنا تھا کہ اولی کو "اس بات سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ان کی پارٹی کے اراکین کب تک ان کی حمایت جاری رکھیں گے۔"

اولی کا سیاسی کیریئر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط ہے۔ اس میں وہ دور بھی شامل ہے جب ملک طویل خانہ جنگی کا شکار رہی اور سن 2008 میں نیپال مطلق العنان ہندو بادشاہت کے خاتمے کے بعد ایک جمہوری ملک بنا۔

اولی نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ انہیں چودہ سال سخت قید کی سزا سنائی گئی جس میں چار سال قید تنہائی کی سزا شامل تھی۔

سابق وزیر اعظم پشپ کمل دہل
سابق وزیر اعظم پشپ کمل دہل کے پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ ہار جانے کے بعد اولی کو وزیر اعظم بنایا گیا ہےتصویر: Dipesh Shrestha/AFP/Getty Images

اولی کے بھارت کے ساتھ تعلقات

تقریباً تیس ملین آبادی والی ہمالیائی جمہوریہ ایشیا کے دو اہم حریف ممالک بھارت اور چین کے درمیان واقع ہے۔ اولی نے اپنے سابقہ دور میں ان دونوں ملکوں کے ساتھ اچھا توازن قائم رکھا۔ دونوں کے ساتھ نیپال کے دوستانہ تعلقات تھے تاہم نئی دہلی پر انحصار کم کرنے کے لیے اولی نے بیجنگ کی طرف زیادہ توجہ دی۔ اولی کے وزارت عظمیٰ کے دور میں نیپال اور بھارت کے رشتوں میں تلخیاں پیدا ہوئیں۔

اولی نے اپنے پہلے دور میں بھارت پر نیپال کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے اور ان کی حکومت کو گرانے کا الزام لگایا تھا۔

نئی دہلی کے ساتھ سن 2020 میں کٹھمنڈو کے تعلقات اس وقت خراب ہوگئے جب نیپال نے اپنے سرکاری نقشے میں بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے علاقوں لیپو لیکھ، کالاپانی اور لمپیا دھورا کو اپنے ملک کا حصہ دکھایا اور اس پر اپنا دعویٰ کیا۔

ایک اور تنازع اس وقت پیدا ہوگیا جب اولی نے دعویٰ کیا کہ ہندو دیوتا رام نیپال میں پیدا ہوئے تھے۔ بھارت میں ہندووں کا کہنا ہے کہ رام کی پیدائش اجودھیا میں اس مقام پر ہوئی تھی جہاں کبھی بابری مسجد تھی۔ بابری مسجد کو ہندو شدت پسندوں نے سن 1992میں منہدم کردیا تھا اور اب وہاں ایک عظیم الشان رام مندر تعمیر ہوچکا ہے۔

بھارت اور نیپال کے درمیان اختلافات کی خبر پچھلے ماہ اس وقت بھی آئی تھی جب نیپال نے اپنے کرنسی نوٹ پر بھارت کے کچھ علاقوں کو اپنا بتاتے ہوئے شائع کردیا۔ بھارت نے اس پر سخت اعتراض کیا تھا۔

 جاوید اختر (اے ایف پی کے ساتھ)