کینیڈین جہادیوں کی بھرتی کے خلاف مساجد کے آئمہ کی جنگ
15 اپریل 2015رَوکی ماؤنٹینز کی وادی میں کیلگری کی مختلف مساجد میں امامت کرانے والی ان مذہبی شخصیات نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کے خلاف گزشتہ مہینے ایک ایسا متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا، جس میں دولت اسلامیہ یا داعش کی طرف سے کینیڈا کو دی جانے والی دھمکیوں کی مذمت کی گئی تھی۔
ان آئمہ کے اس فتوے کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنی صفوں میں نئے جہادیوں کی بھرتی کے لیے آن لائن مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں میں شمولیت کے لیے اب تک کینیڈا کے جو درجنوں شہری شام کا رخ کر چکے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق کیلگری ہی کے شہر سے تھا۔
اپنے اس فتوے میں ان آئمہ نے کینیڈا کے مسلم نوجوانوں کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی شدت پسندی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم نے ’اسلامی احکام اور شعائر کی انتہائی غیر انسانی اور بربریت آمیز انداز میں خلاف ورزی‘ کی ہے۔
اس بارے میں کیلگری کے المدینہ اسلامک سینٹر کے صدر خلیل خان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’اس فتوے کے بعد وہ مسلمان، جنہیں اس فتوے میں مخاطب کیا گیا ہے، اس انتہا پسند گروپ میں اپنی شمولیت کا خیال ذہن میں آنے پر کئی بار سوچیں گے۔ وہ اس بات پر غور کرنے پر مجبور ہوں گے کہ جو کچھ کرنے کا وہ سوچ رہے ہیں، وہ درست ہے یا غلط؟‘‘
خلیل خان کینیڈا کے مختلف شہروں کی مساجد کے ان 37 آئمہ اور مذہبی اسکالرز میں سے ایک ہیں، جنہوں نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے۔ اس فتوے کی حمایت امریکی ریاست ٹیکساس میں مسلمانوں کی ایک مسجد کے امام نے بھی کی ہے۔ اس فتوے کی ضرورت اس بارے میں اطلاعات کی تصدیق کے بعد اور بھی زیادہ ہو گئی تھی کہ کینیڈا کے تیل کی دولت سے مالا مال صوبے آلبیرٹا سے کم از کم ایک درجن مسلمان ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر ان کے نام نہاد جہاد میں شمولیت کے لیے بیرون ملک جا چکے ہیں۔
کیلگری کی المدینہ مسجد کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ظہیرہ طارق نے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’جو نوجوان اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں میں شامل ہونے کا سوچتے ہیں، ان کے لیے سب سے بڑی کشش اسلام کی وہ تشریح ہوتی ہے، جو سرے سے غلط ہوتی ہے۔ نوجوان لوگ اس لیے ایسے جہادیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں کہ ان میں اسلامی تعلیم کی کمی ہوتی ہے اور انہیں حدیث کے نام پر غلط باتیں بتائی جاتی ہیں۔‘‘
ظہیرہ طارق کے مطابق ایسے کینیڈین مسلم نوجوانوں کو ایسے آئمہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو انہیں اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کرا سکیں۔
یوں تو گزشتہ دہائیوں کے دوران پورے کینیڈا میں ہی مسلم آبادی میں خاصہ اضافہ ہوا ہے لیکن کیلگری میں یہ اضافہ حیران کن رہا ہے۔ 2010ء میں اس سے دو عشرے پہلے کے مقابلے میں اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی چار گنا ہو کر ایک لاکھ بیس ہزار ہو چکی تھی۔ یہی نہیں بلکہ تب کیلگری کینبیڈا کے بڑے شہروں میں سے پہلا شہر تھا، جہاں ایک مسلمان کو بلدیاتی الیکشن میں میئر منتخب کیا گیا تھا۔
کینیڈا سے اب تک جتنے بھی مسلمان شہری ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شامل ہونے کے لیے شام گئے ہیں، ان سب کا تعلق یا تو مسلمان تارکین وطن کے گھرانوں سے تھا یا وہ مقامی نومسلم شہری تھے۔ ان میں سے کیلگری کے رہنے والے بائیس سالہ نومسلم دامیان کلیئرمونٹ کا تعلق ایک مقامی مسیحی گھرانے سے تھا۔ دامیان وہ پہلا کینیڈین شہری تھا جو جنوری 2014ء میں شام میں اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔